حکومت عام آدمی کے مسائل حل کرنے کیلئے کس قدر کوشاں ہے اس کا اندازہ وزرائے کرام کے بیانات اور ترجیحات سے لگایا جا سکتا ہے۔ میرے سامنے آج کا اخبار رکھا ہے، آئیے دیکھتے ہیں ہمارے وزرائے کرام اور مشیران گرامی ایک عام آدمی کے غم میں کس طرح دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے وزیر ریلوے جناب اعظم سواتی صاحب کا ارشاد گرامی ہے۔ فرماتے ہیں:"تین بار وزیر اعظم بننے والا دھوکے باز نکلا۔ پی ڈی ایم والے اسلام آباد آئے تو ان کا منہ کالا ہو گا۔ کرپٹ باپ کا بیٹا بلاول پاکستان کی کیا عزت بحال کریگا۔ عدالتی بھگوڑے اور سزا یافتہ مجرم کی بیٹی ملک کی کیا خدمت کریگی"۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر جناب فواد چودھری سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور پر اپنی وزارت کی کارکردگی کا احوال یوں بیان کرتے ہیں: "کسی میں جرات نہیں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔ چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ۔ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی حکمت عملی ہے نہ کوئی پلان۔ آپ عمر قید اور نا اہلی سے بچ جائیں تو غنیمت سمجھیے گا"۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ جناب شہباز گل ابلاغ فرماتے ہیں:"لوٹ مار کی سیاست کرنیوالے ٹھگ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ غریب کا خون نچوڑنے والے شرم سے عاری لوگ ہیں۔ ن لیگ میں چوروں کی بھرمار ہے۔ معاہدے کر کے جدہ جانیوالے اور ان کے درباریوں کی وفاداریاں ایک این آرا و کی مار ہے۔ نسل در نسل خاندانی غلام آمرانہ سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہیں "۔
امور خارجہ کی گتھی سلجھاتے ہوئے جناب شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں:"پی ڈی ایم غیر فطری اتحاد ہے جو دن بدن بکھر رہا ہے۔ مہنگائی کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ اب اپوزیشن نے عمران خان صاحب کو وزیر اعظم تسلیم کر لیا ہے۔ اب سلیکٹڈ کہنا بھی بند کر دیں "۔
وزیر دفاع جناب پرویز خٹک دفاعی معاملات پر اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"مریم نواز، مولانا فضل الرحمن اور، بلاول بھٹو زرداری اقتدار کی کر سی سے محرومی کی وجہ سے حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم والے ایک دوسرے سے بد ظن ہیں۔ ان کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ان کا مصنوعی الحاق خزاں کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا"۔
گورنر پنجاب چودھری سرور صاحب اپنے منصب کی آئینی ذمہ داریوں کا ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"اپوزیشن اپنی تسلی کر لے۔ عمران خان ہی وزیر اعظم رہیں گے۔ ہر محاذپر ناکامی کے بعد پی ڈی ایم اب محفوظ راستے کی تلاش میں ہے۔ حکومت مضبوط ہے۔ دھمکیوں سے کوئی اثر نہیں پڑے گا"۔ اور وزیر قانون پنجاب جناب راجہ بشارت نے وزارت قانون میں ہونے ولی اب تک کی پیش رفت سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: "اپوزیشن ناکام ہو گی۔ اسے چاہیے وہ جلسوں اور احتجاج کی ضد ترک کر دے"۔
سول ایوی ایشن کے وزیر جناب سرور خان نے پی آئی اے کو درپیش بحران اور اقوام متحدہ کی اپنے اہلکاروں کو پاکستانی ایئر لائن میں سفر نہ کرنے کے بعد پیدا ہونے والے چیلنج پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:" شیطان کبھی پی ڈی ایم اور کبھی ایم آر ڈی کی شکل میں ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم والے استعفے دے رہے تھے۔ کہاں ہیں ان کے استعفے؟ ان کا مستقبل جیلیں ہیں اور ان کا انجام بھی یہی ہے"۔
یہ ایک دن کی کہانی نہیں۔ یہ روز کی کہانی ہے۔ اس سارے مشاعرے میں، سوال یہ ہے کہ، عوام کہاں ہیں؟ عوام کے مسائل پر کب بات ہو گی؟ گڈ گورننس کیا صرف اسی چیز کا نام ہے کہ حزب اختلاف کو صبح دوپہر شام لعن طعن جاری رکھی جائے؟ لوگ اس رویے سے تنگ آ چکے ہیں۔ سابق حکمران اچھے ہوتے تو لوگ آپ کو منتخب نہ کرتے۔ لیکن اب آپ کب تک یہی "پہاڑا" پڑھتے رہیں گے کہ وہ تو بڑے کرپٹ اور بے ایمان تھے۔ آپ کے اقتدار کو تین سال ہونے کو ہیں اب تو آپ اپنے نامہ اعمال پر بات کیجیے۔ عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا کہتے ہیں اور اس شام مبلغ چھ عدد وزراء پریس کانفرنس فرما دیتے ہیں۔ گویا کابینہ زبان حال سے اعتراف کر رہی ہے کہ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ کون سا وزیر سیاسی حریفوں کی خوب خبر لیتا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی۔۔۔ مسائل کا ایک انبار کھڑا ہے لیکن سیاسی اشرافیہ کے مسائل ہی اور ہیں اور گفتگو بھی۔ ان کی جانے بلا کہ ایک عام آدمی صبح کو شام کیسے کرتا ہے۔
ہمارے اہل دانش اردو میں کالم لکھ کر جو بائیڈن کو مشورے دے رہے ہیں کہ اسے امریکہ میں کس طرح حکومت کرنی چاہیے لیکن مقامی مسائل پر بات کرتے ہوئے ہماری دانشوری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سماج اور اس سے جڑے مسائل کسی کا موضوع ہی نہیں۔ چند تھنک ٹینک اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہیں تو ان کی ترجیح بھی سکیورٹی سے جڑے معاملات ہیں، سماج کی محرومیاں نہیں۔ یہاں ایسا نامبارک بندوبست بن چکا ہے کہ گھر میں ایک آدمی بیمار پڑ جائے تو علاج کی کوششوں میں عمر بھر کی کمائی اجڑ جاتی ہے، کھانے کو کچھ خالص نہیں، پبلک سروس کمیشن کے پرچے بھی اب فروخت ہو رہے ہیں، بچوں کو اچھی تعلیم دلانا کوہ کنی بن چکا لیکن ہم نے اپنے ان مسائل پر بات نہیں کرنی۔ عام آدمی سیاسی اشرافیہ کے غم میں مجنوں بنا پھرتا ہے۔ کوئی بیانیے کا مجاور ہے تو کوئی تبدیلی کا پجاری۔ اپنے مسائل، اپنی محرومیوں اور اپنے دکھوں کو بھلا کر یہ اپنے اپنے قائد محترم اور اس کے خانوادے کے مستقبل کے لیے پریشان پایا جاتا ہے۔ یہ بلاول، مریم اور عمران کے غم میں دبلا ہوتاہے اور انہی کی محبت میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے لڑتے رہتاہے۔ مائل نے کہا تھا:
غیر کا حال تو کہتا ہوں نجومی بن کر
آپ بیتی نہیں معلوم وہ نادان ہوں میں