پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے وہی تعلق ہے جو ایک طالب علم کا ایک صاحب علم سے ہوتا ہے۔ ان کی تحریریں فکری زاد راہ کا کام کرتی ہیں۔ ان کے مزاج سے وہی سادگی لپٹی ہے جو ملک معراج خالد مرحوم کا تعارف تھی۔ میرے جیسے طالب علم کے لیے یہ باعث افتخارہے کہ اقبال سے علی گیلانی تک، ہماری محبتوں کے کتنے ہی حوالے سانجھے ہیں۔ سانجھے کیا ہیں، یہ وہ نعمت ہے جس کا ایک بڑا حصہ ان کی تحریروں سے مجھے گویا میراث میں آیا ہے۔
پروفیسر صاحب کی خود نوشت، آشیانہ غربت سے آشیاں درآشیاں، ایک ماہ سے زیر مطالعہ ہے۔ ہمارے ہاں خود نوشت اب خود نمائی کی ایک ایسی نا معتبر مشق بن کر رہ گئی ہے، جس کی بنیاد پر ادھوری خواہشات اور تخیل کے آزار کو حقیقت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک سکالر جب یہ کام کرتا ہے تو وہ اپنے عہد کو اپنے مشاہدے اور فکر میں گوندھ کر مجسم کر دیتا ہے۔ ملک صاحب کی یہ خود نوشت، اس عہد کا ایک فکری تجزیہ بھی ہے۔ یہ خود نوشت ہے مگر تشہیرِ ذات سے بے نیاز اور بلند ہو کر لکھی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو اس کی علمی وجاہت میں اضافہ کرتی ہے۔
کالم کی تنگنائے میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اس لیے میں صرف وہ چند اقتباسات نقل کر دیتا ہوں جن کی معنویت آج بھی حالات حاضرہ جیسی ہے۔
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: میں بہاولپور پہنچا تو میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ بھٹو صاحب جہاں جہاں بھی جا رہے ہیں، ان کے پیچھے پیچھے امریکی سفارت خانے کا اتاشی اس دورے کے اثرات و نتائج کو سمجھنے میں مصروف عمل رہنے لگا ہے۔ اگلے روز جب سب لوگ اسلام آباد سے واپس پہنچے تو میں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا۔ بھٹو صاحب کو اس بابت آگاہ کیا گیا تو انہوں نے فورا یہ سوال اٹھایا کہ اس امریکی سفارت کار کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ ہمارے دورے کے اثرات و نتائج کی تفتیش کرتا پھرے۔ پتا چلا کہ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات حفیظ الرحمن کے حکم پر بہاولپور ڈویژن کے کمشنر نے امریکی سفارت کار کے دورے میں معاونت کی تھی۔ رامے صاحب نے حفیظ الرحمن سے پوچھا کہ آپ نے خود سے ہی یہ فیصلہ کیوں کیا؟ وہ کہنے لگے: میں نے یہ سوچا تھا کہ امریکی سفارت کار کو کون روک سکتا ہے؟ بجائے اس کے کہ یہ میرے لیے اوپر سے حکم لائے، میں خود ہی اسے اجازت دے دیتا ہوں۔
بھٹو صاحب سے پروفیسر صاحب کی محبت کا بھی وہی عالم ہے جو ملک معراج خالد مرحوم کا تھا۔ ملک معراج خالد بھٹو کی متھ آف انڈی پڈنس (آزادی موہوم) کے بہت مداح تھے اور انہوں نے اس کا ایک نسخہ مجھے دیا تھا کہ اسے ضرور پڑھنا۔ اتفاق دیکھیے کہ فتح محمد ملک کی خود نوشت کے ایک باب کا عنوان بھی۔ آزادی موہوم ہے۔ انیسویں باب میں پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
"جس زمانے میں بھٹو صاحب قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا تھے، میں اس زمانے میں قائد اعظم یونی ورسٹی میں تدریس و تحقیق میں منہمک تھا۔ ہماری فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان ایک نیک نہاد اور بلند کردار شخصیت تھے۔ ان کے خاندان ہی کے چشم و چراغ جنرل خالد محمود عارف صاحب ضیاء الحق کے مضبوط ترین دست و بازو تھے۔ ایک روز میں اپنے دفتر سے اٹھا اور ان کے دفتر جا نکلا۔ گزارش کی کہ اپنے بھائی جنرل عارف سے کہیں کہ وہ اپنے اثرو رسوخ سے کام لے کر بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے سے بچا لیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا:" اگر ایک آدمی کی پھانسی سے پوری قوم نجات کے راستے پر گامزن ہو سکتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟"۔ یہ کہہ کر انہوں نے نماز ظہر کے لیے جا ئے نماز بچھا لی۔
کتاب میں صحافت کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ احمد فراز کی نفرتوں کے صحیفے، والی غزل کے خلاف ایک اخبار میں اداریہ شائع ہوا۔ بھٹو صاحب یہ اداریہ پڑھ کر پریشان ہو گئے اور انہوں نے وزیر اعلی پنجاب سے کہا کہ مدیر محترم جناب مجید نظامی صاحب سے بات کریں۔ فتح محمد ملک لکھتے ہیں کہ یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی کہ وہ نظامی ساحب کے پاس جائیں۔ اس دوران احمد ندیم قاسمی صاحب نے انہیں بتایا کہ جس شعر کو بنیاد بنا کر اداریہ لکھا گیا ہے وہ شعر تو غزل میں شائع ہی نہیں ہوا اور فنون میں چھاپتے وقت انہوں نے اسے کاٹ دیا تھا۔
فتح محمد ملک صاحب فنون کا یہ شمارہ لے کر نظامی صاحب کے پاس گئے۔ وہ لکھتے ہیں: میں نے نہایت ادب سے کہا کہ فراز کی غزل میں تو یہ شعر ہی موجود نہیں"۔ نظامی صاحب حیرت میں ڈوب گئے اور کہا: آپ کی حکومت بھی عجب حکومت ہے۔ یہ شعر مجھے مرکزی وزیر اطلاعات جناب کوثر نیازی نے ٹیلی فون پر خود لکھوایا اور ساتھ ہی بھٹو صاحب کا یہ پیغام بھی دیا کہ میں فراز کی ان حرکتوں سے بہت تنگ ہوں آپ اس کے خلاف اداریہ لکھیں تا کہ میں اسے نوکری سے نکال سکوں۔
ملک صاحب نے مجید نظامی صاحب کی اجازت سے سارا واقعہ بھٹو صاحب کو سنایا تو بھٹو صاحب نے ایک قہقہہ لگا کر کہا کہ اگر پارٹی کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو اندر سے ہو رہی ہے۔ بعد ازاں بھٹو نے احمد فراز صاحب کو خود فون کر کے بتایا کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ان کی جان بچا لی ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ پڑھیے۔ لکھتے ہیں کہ اسلام آبا د ہوٹل کی ایک تقریب میں سلیم احمد صاحب تشریف لائے تو میں نے بہ منت انہیں اپنی کرسی پر بٹھایا اور خود ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ پریشان خٹک نے اس پر بعد میں اعتراض کر د یا کہ میں یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوں، صدیق سالک صدر کے پریس سیکرٹری ہیں۔ ہم نے تھری پیس سوٹ پہن رکھے ہیں لیکن جب ہم داخل ہوئے تو فتح محمد ملک ٹس سے مس نہیں ہوئے اور اب یہ میلی شیروانی میں ایک آدمی آیا ہے تو انہوں نے اسے نشست پیش کر دی ہے۔ میں اور صدیق سالک اس پر احتجاج کرتے ہیں۔
اس پر احمد ندیم قاسمی نے حیرت سے پوچھا: پریشان خٹک صاحب آپ واقعی اس اجلی اور منور شخصیت سے متعارف نہیں؟ یہ سلیم احمد تھے۔
کتاب کا ایک باب ہے: معراج خالد کالونی کا مقدر، اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ لکھتے ہیں کہ جب معراج خالد ریکٹربنے تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا کیمپس چند کمروں پر مشتمل تھا۔ ملک معراج خالد نے بے نظیر بھٹو سے یونیورسٹی کا نیا کیمپس منظور کروایا۔ ملک معراج خالد کی خدمات کی تحسین میں گریڈ سولہ تک کے ملازمین کے لیے رہائشی کالونی بنانے کا فیصلہ ہوا اور اس کا نام معراج خالد کالونی رکھا گیا۔ فتح محمد ملک صاحب لکھتے ہیں :" جونہی میری ریکٹر شپ کی مدت پوری ہوئی کام بند اور معراج خالد کالونی کا بورڈ تک غائب کر دیا گیا"۔