ایک دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ غلام علی خان تشریف لائے، جن کی آواز سے آپ ہارمونیم سُر کر سکتے ہیں کہ ہارمونیم کے سُر اور ان کے گلے میں کوئی فرق نہیں۔۔۔۔۔ یہ میری روایت نہیں، اس واقعے کے راوی ممتاز مفتی کے صاحبزادے عکسی مفتی ہیں۔ عکسی مفتی لکھتے ہیں کہ اس روز غلام علی خان بہت پریشان تھے۔
اس واقعے کی طرف بعد میں آتے ہیں، آج اپنے ایک پریشان سوال جواب ملا ہے، پہلے اس پر بات کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں کل دھوپ نکلی تھی، آج پھر بادلوں کا بسیرا ہے۔ ایف سکس سے نکل کر بلیو ایریا کی جانب آیا تو بائیں ہاتھ نیف ڈیک کا سینما تھا۔ گھنے درخت، چہچہاتے پرندے لیکن عمارت اجڑ چکی۔ درودیوار پر ویرانی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے یہاں کتنی رونق ہوا کرتی تھی۔ یونیورسٹی ہاسٹل سے پیدل ہی ہم لوگ یہاں انگریزی فلم دیکھنے آیا کرتے ہے۔ آج یہ خوبصورت عمارے بھوت بنگلہ بن چکی۔ ایک ٹوٹے روشن دان میں جنگلی کبوتروں کا ایک جوڑا غٹر غوں کر رہا تھا۔ گاڑی کھڑی کر کے میں اندر داخل ہو گیا۔ میرے ساتھ کتنی ہی یادیں چلی آئیں۔
ایسی ہی ایک شام تھی، میں اور افتخار کلاس بنک کر کے نکلے تو پیچھے سے آتی ایک کار ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ اسے ڈاکٹر محمد الغزالی ڈرائیو کر رہے تھے جو آج کل سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بنچ کے جج ہیں۔ تب وہ ہمیں تقابل ادیان پڑھایا کرتے تھے۔ آ جائیے، بیٹھیے۔ حکم ملا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سوال ہوا: کہاں جا رہے ہیں؟ یہ ایک غیر متوقع سوال تھا، گھبراہٹ میں ہم نے جواب تو دیا مگر دونوں کا جواب مختلف تھا، چوری پکڑی گئی۔ جسٹس صاحب مسکرائے، گھڑی دیکھی اور کہا: دیکھیے حضرت وقت کم ہے، میں آپ کو نیف ڈک ہی اتار دیتا ہوں۔ جہاں جسٹس صاحب نے ہمیں اتارا تھا، وہ گیٹ جھاڑ جھنکار میں دب چکا ہے۔ اسلام آباد کے کاروباری مرکز میں، انتہائی قیمتی جگہ پر اتنی خوبصورت عمارت، جس کا ڈھانچہ آج بھی مضبوط ہے، ایک بھوت بنگلہ کیوں بن گئی اور برسوں سے ویران کیوں پڑی ہے۔ یہ سوال عرصے سے دامن گیر تھا۔ آج عکسی مفتی نے یہ گتھی سلجھا دی۔
عکسی مفتی کہتے ہیں قیام پاکستان کے بعد لاہور فلم سازی کا مرکز تھا۔ فلم سازی کی اٹھان اچھی تھی اور خیال تھا لاہور فلم سازی میں بھارت کا ایسے ہی مقابلہ کرے گا جیسے کرکٹ ٹیم کر رہی تھی۔ سب کچھ اچھا تھا اچانک حکومت نے فلم بنانے کا ایک ادارہ بنا دیا۔ فلم سازی کا مرکز لاہور میں تھا لیکن ادارہ اسلام آباد میں بنا دیا گیا۔ کچھ سال تو ادارے کے دفاتر اور بابو لوگوں کے سازوسامان، گاڑیاں، مراعات اور سہولیات کی جزئیات طے کرتے گزر گئے۔ پھر اختیارات کے استعمال کا خیال آیا۔ پہلا حکم جاری ہوا کہ فلم، فلم سازی اور اس کاروبار سے جڑے افراد تین ماہ کے اندر ادار ہذاکو رپورٹ کریں اور رجسٹریشن کرائیں ورنہ کام نہیں کر سکیں گے۔ پھر حکم آیا کہ آئندہ سے فلم کا خام مال صرف منظور شدہ فلمی ہدایت کاروں کو ہی ملے گا۔ پھر ایک اور حکم آیا فلم کی کہانی بھی ہم منظور کیا کریں گے۔ پھر طے ہوا ہم خودایک فلم بھی بنائیں گے تا کہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو۔ جب فلم بنانی ہے تو ظاہر ہے سازو سامان بھی چاہیے۔ بیوروکریسی نے جب ناقص مال مہنگے داموں خرید کر مال پانی بنا لیا تو اب نیا خیال آیا۔ طے ہوا اب ہمارے اپنے کچھ سینما گھر بھی ہونے چاہییں جہاں یہ فلمیں دکھائی جائیں جو ہم خود بنائیں گے۔ چنانچہ نیف ڈک سینما بیوروکریسی کے اسی مفاداتی پیکج کی عملی شکل تھی۔
بیوروکریسی کی اس واردات نے فلم انڈسٹری کو تباہ کر دیا۔ فلمیں بھی یہی امپورٹ کرتے تھے۔ سینما گھروں کے مقابل اپنے سینما گھر بنا لیے۔ اس اجارہ داری نے پوری اندسٹری برباد کر دی۔ آج نہ وہ فلم بنانے والا ادارہ باقی ہے نہ اس کا سازو سامان۔ نیف ڈک بھوت بنگلہ بن چکا۔ متعلقہ بیوروکریٹ خدا جانے نجی چینلز پر اب قوم کی رہنمائی کرتے پائے جاتے ہوں یا اللہ میاں کے پاس پہنچ چکے ہوں لیکن ان کے فکری افلاس نے فلم اندسٹری کو برباد کر دیا اور نیف ڈک میں ویرانی اتر چکی ہے۔
استاد غلام علی خان صاحب بھی اسی بیوروکریسی کے ہاتھوں پریشان تھے اور عکسی مفتی کے پاس جا پہنچے۔ عکسی مفتی کہتے ہیں ان کی پریشانی یہ تھی اپنے ملک میں ریڈیو پر معاوضہ کم ہے، ٹی وی پر غزل گائیکی نہیں رہی، بچوں کی فیسوں وغیرہ کے لیے وسائل چاہییں۔ بیرون ملک پروگرام کرنے سے کچھ رقم اکٹھی ہو جاتی ہے۔ لیکن حکومت نے بیرون ملک پروگرام کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ ضیاء الحق صاحب کو کسی " ماہر بیوروکریٹ" نے بتایا کہ فنکار غیر اسلامی لباس میں باہر جاتے ہیں اور ملک کی بد نامی کرتے ہیں۔ چنانچہ پابندی لگا دی گئی۔
عکسی مفتی نے سیکرٹری کلچر مسعود نبی نور صاحب کو فون کیا کہ غلام علی کا باہر جا کر پرفارم کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے اس لیے انہیں این او سی جاری کیا جائے۔ سیکرٹری نے یقین دہانی کرائی کہ ایسے مایہ ناز فنکار پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، این او سی جاری کر دیا جائے گا۔ چند ہفتے بعد غلام علی خان پھر تشریف لے آئے، عکسی مفتی نے پوچھا خان صاحب دورہ کیسا رہا۔ خان صاحب نے ایک لفافہ سامنے کر دیا۔ لفافہ کھولا تو وزارت ثقافت کے سیکشن افسر کے جاری کردہ این او سی میں لکھا تھا: "حکومت پاکستان کو غلام علی کے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں، شرط یہ ہے کہ وہ وہاں جا کر گائیں نہیں "۔
عکسی مفتی نے اس کا حل یہ نکالا کہ غلام علی خان سے کہا آپ چلے جائیے وہاں جاتے ہی پہلا پروگرام پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ پر کیجیے، پھر جہاں دل کرے پروگرام کیجیے۔ غلام علی خان نے ایسا ہی کیا۔ اوپر تلے پروگرام ہوئے اور کامیاب ہوئے۔ سفیر نے حکومت کو خط لکھا کہ غلام علی کی گائیکی نے یہاں تہلکہ بر پا کر دیا ہے اور پاکستان کا نام روشن ہو گیا ہے۔ حکومت نے شرمندہ ہونے کی بجائے وزارت خارجہ اور وزارت ثقافت کی باقاعدہ خط لکھ کر تعریف فرما دی کہ آپ کی ماہرانہ پالیسیوں اور شاندار کارکردگی کے طفیل دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہو رہا ہے۔
بیوروکریسی کے یہی رویے ہیں جنہوں نے اس ملک میں ثقافت کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پی ایس ایل کا میچ ہوتا ہے، مقامی کلچر اور ثقافت کو اجاگر کرنے کی بجائے بے سرے اور سفارشی گلوکار مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ الن فقیر جیسا آدمی سندھ میں گریڈ ایک کی نوکری کرتا رہا اور اسے جتایا جاتا رہا کہ ڈگری نہ ہونے اور منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے کی خوبی سے محروم ہونے کے باوجود ہم نے تمہیں نوکری عطا فرمائی ہے۔
فخرہند بڑے غلام علی خان ناقدری کا شکار ہو کر نہرو کی دعوت پر اپنے طبلہ نواز اللہ رکھا سمیت بھارت چلے گئے۔ اکتارے کے موجد سائیں مرنا کو ریڈیو پاکستان میں چوتھے گریڈ کی نوکری نہ مل سکی۔ استاد رنگی خان شادیوں میں بینڈ بجا کر گزارا کرتے رہے۔ لیکن بیوروکریسی کے مزے رہے۔ وہ ان کے نام پر کھاتی رہی۔ کبھی وزارت ثقافت کے عنوان سے، کبھی ستار بجانے کے لیے ڈائرکٹوریٹ بنا کرتو کبھی فلم کارپوریشن کے نام سے۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہر طرف کاغذی گھوڑے ہنہنا رہے ہیں۔