سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے سوال لکھ بھیجا کہ لوگ اگر ڈاکٹر اے کیو خان کی اتنی ہی عزت کرتے تھے تو انہوں نے الیکشن میں اے کیو خان کی جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیے؟ یہ سوال پڑھا تو ملک معراج خالد یاد آ گئے۔
ملک معراج خالد جب بین الاقوامی یونیورسٹی کے ریکٹر تھے تو یہ دفتر ایک درویش کا آستانہ تھا۔ نہ کوئی کروفر، نہ کوئی پروٹوکول، نہ کوئی رعونت، نہ عہدے کی اکڑ، درویش کا آستانہ سب کے لیے کھلا تھا اور کسی میٹنگ یا دفتری معاملات میں مصروف نہ ہوتے تو آنے والا انتظار کی زحمت کیے بغیر ان سے ملاقات کر سکتا تھا۔ لوگ جھجھکتے ہوئے ملنے آتے، اور پی ایس اسماعیل صاحب بے اعتنائی سے کہتے اندر چلے جائیے ملک صاحب بیٹھے ہیں۔
میں نے کئی لوگوں کو یہ جواب سن کر مزید نروس ہوتے دیکھا کہ سابق وزیر اعظم اور ریکٹر سے ملنا اتنا آسان کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے جب زمانہ طالب علمی میں ان کے خلاف ایک سخت کالم لکھا اور انہوں نے مجھے دفتر طلب کر کے اس کالم پر باز پرس کرنے کی بجائے داد دی تو یہ میرے لیے کسی حیرت کدے سے کم نہ تھا۔ اٹھنے لگا تو انہوں نے مجھے روک کر کہا محمود دو باتیں اچھی طرح یاد رکھنا: پہلی بات یہ کہ کالم اسی طرح لکھتے رہنا۔ تحریر کا یہ بانکپن کبھی ختم نہ ہونے دینا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اب مجھ سے ملتے رہنا۔ ملاقات میں کبھی اتنا وقفہ نہ آئے کہ مجھے تمہیں بلانا پڑے۔
ملک معراج خالد کی سادگی اور درویشی نے مجھے ان کا گرویدہ کر دیا۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا۔ اس دوران ان کے دفتر میں لوگ انہیں جو کتابیں اور رسائل وغیرہ بھیجتے وہ ان کی چھانٹی کر کے میرے لیے رکھ لیتے۔ میں جاتا تو وہ کتابیں میرے حوالے کر دیتے۔
ملک صاحب مصروف نہ ہوتے تو اپنے تجربات اور مشاہدات بتاتے۔ ایک روز میں نے سوال کیا سر آپ الیکشن کیوں نہیں لڑتے؟ ملک صاحب کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہنے لگے: محمود، اللہ کا شکر ہے اس نے مجھے عزت عطا کر رکھی ہے۔ میں حلقے میں جاتا ہوں تو اپنے پرائے سب احترام سے پیش آتے ہیں۔ یہ احترام نہ کسی ڈر کی وجہ سے ہے نہ کسی مفاد کے پیش نظر۔ لیکن چھوٹے بڑے سب میرا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود میں اگر الیکشن میں حصہ لوں تو تم جانتے ہو اس کا انجام کیا ہو گا؟ آپ بہت آسانی سے جیت جائیں گے سر۔ میں نے بلا تامل جواب دیا۔
ملک صاحب زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں ان دنوں الیکشن لڑ رہا تھا اورسہ پہر کا وقت تھا۔ میں گھر میں بیٹھا تھا۔ مجھے بتایا گیا میرے مخالف امیدوار مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے انہیں عزت و احترام سے بٹھایا، چائے پیش کی اور پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں۔
وہ کہنے لگے کہ ملک صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے اس سلسلے میں مشورہ لینے آیا ہوں۔ میں جہاں جاتا ہوں، مخالف امیدوار کے طور پر آپ کی کوئی خامی اور خرابی بیان کرتا ہوں اور لوگوں سے کہتا ہوں کہ ملک معراج خالد میں یہ برائی موجود ہے اس لیے اس کو ووٹ مت دینا۔ لوگ میری تقریر سن لیتے ہیں لیکن تقریر کے بعد کچھ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ ووٹ تو ہم آپ کو ہی دیں گے لیکن آپ ملک معراج خالد جیسے شریف آدمی پر تہمت نہ لگائیں۔ ہم معراج خالد کو جانتے ہیں وہ ایسا نہیں ہے۔
ملک صاحب کہنے لگے کہ یہ سن کر میں نے اس بندے سے پوچھا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ اس آدمی نے کہا میں آپ سے دو چیزیں مانگنے آیا ہوں۔ ایک تو میں آپ سے معذرت کرنے آیا ہوں۔ دوسرا میں آپ سے آپ کی دو چار برائیاں جاننے آیا ہوں۔ آپ مجھے اپنی دو چارایسی خامیاں بتا دیں جو میں الیکشن میں لوگوں کو بتائوں تو لوگ میرا یقین کر لیں اور مجھے سر محفل شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ اب میں آپ کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہوں تو آپ کے خلاف مجھے کچھ تو کہنا ہے۔
میں نے تجسس سے پوچھا کہ سر پھر آپ نے کیا جواب دیا؟ ملک معراج خالد کہنے لگے کہ میں نے ان سے کہا آپ کو معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ بلاوجہ حسن ظن رکھتے ہیں، ان میں مروت بہت زیادہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو خرابیاں آپ نے بیان کیں، مجھ میں اس سے بھی زیادہ خامیاں موجود ہیں۔ بس یہ ہے کہ کچھ اللہ نے بھرم رکھا ہوا ہے اور کچھ لوگ پیار کرتے ہیں۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ ہاں محمود اب تم بتائو میں الیکشن لڑوں تو انجام کیا ہو گا؟ میں تو بتا چکا ہوں سر کہ آپ آسانی سے جیت جائیں گے۔۔۔۔ دفتر کے جو دیگر سٹاف افسران ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے بھی میری بات کی تائید کی۔
ملک صاحب نے کہا آپ کی رائے درست نہیں۔ جیت جانے کا تو امکان ہی نہیں ہے، اس بات کا البتہ یقین ہے کہ میں صرف ہاروں گا ہی نہیں بلکہ میری ضمانت بھی ضبط ہو جائے گی،۔ لوگ مجھ سے بھلے محبت کر تے ہیں، احترام سے پیش آتے ہیں، میرے خلاف غلط الزام برداشت نہیں کرتے، مجھ سے ملتے ہیں تو عزت دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجھے ووٹ بھی دیں گے۔
میں نے کہا سر لوگ منافقت کرتے ہیں، ْ لیکن ملک معراج خالد نے میری اس بات سے بھی کلی طور پر اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے لوگوں کامقدمہ پیش کرنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منافقت بھی ہو گی اور پیسے کا عمل دخل بھی بہت ہو گیا ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ لوگ قانون سازی کے لیے اراکین منتخب کر کے اسمبلیوں میں نہیں بھیجتے۔ ان کی ترجیح اپنی محرومیاں، اپنے مسائل اور اپنے خوف ہوتے ہیں۔
کوئی یہ سوچ کر ووٹ دیتا ہے کہ فلاں پیسے والا ہے یہ دو چار کام کرا دے اور اس کی جنموں کی محرومیاں دور ہو جائیں گی۔ کسی کا خیال ہوتا ہے فلاں طاقتور ہے اس کو ووٹ دینے سے وہ کتنے ہی لوگوں کے شر سے محفوظ ہو جائے گا۔ گلیاں، بجلی، گیس، تھانہ، کچہری جیسے کئی مسائل ہوتے ہیں جو غریب آدمی سے اس کا حق انتخاب چھین لیتے ہیں۔ لوگ بظاہر آزاد ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ نہ ہی ان کی رائے آزاد ہے۔ بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے بھی انہیں سفارش درکار ہوتی ہے۔ گروہی اور خاندانی عصبیتیں بھی ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ میرے جیسے لوگ ان کی بہت سی جائز توقعات اور معیارات پرپورا نہیں اتر سکتے۔ جب انہیں ضرورت ہوتی ہے تو دستیاب نہیں ہو سکتے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یاد آیا کہ اے کیو خان محسن پاکستان تھے، لیکن الیکشن میں ان کی جماعت کو ایک بھی نشست نہ مل سکی اورمایوسی کے عالم میں انہوں نے جماعت ہی تحلیل کر دی۔ قائد اعظم کے بعداے کیو خان سے زیادہ اس قوم نے شاید ہی کسی سے محبت کی ہو لیکن محبت کا مطلب ووٹ دینا نہیں ہوتا۔ دونوں کی ترجیحات اور تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ وجہ وہی ہے جو مرحوم معراج خالد صاحب نے بیان کر دی تھی۔