ناخواندہ لوگ ادویات کی قیمتوں میں 260 فیصد اضافے پر چیخ و پکار کر رہے ہیں حالانکہ ان میں بصیرت ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جب سکون قبر میں ہے تو ادویات کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ کم بخت تو آدمی اور سکون کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ علم و حکمت کی یہ بات جب آدمی پر آشکار ہو جائے تو وہ چیخ و پکار نہیں کرتا، وہ جذب و مستی میں چلا جاتا ہے اور اس کا ہولے ہولے سے " نچنے نوں دل کردا" ہے۔ یہ کرپٹ لوگوں کی حکومتیں تھیں جنہوں نے ادویات کی قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے قابو کیا ہوا تھا، اب نیک لوگ اقتدار میں آئے ہیں تو انہوں نے ادویات کی قیمتوں کو ان کی قدرتی شکل عطا فرما دی ہے۔
پہلے ادویات کو صرف بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا تھا، اب ادویات کو ہر ایک کی پہنچ سے دور رکھا جائے گا۔ تو ہے کوئی جسے اب بھی شک ہو کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے؟ خلق خدا کی جیب میں روپیہ نہیں اور ادویات 260 فیصد تک مہنگی کر دی گئی ہیں لیکن کیا اہل سیاست اور کیا اہل دانش سب چند ملاقاتوں پر مضامین باندھے چلے جا رہے ہیں۔ نونہالان انقلاب پر پیار آتا ہے جب وہ مصرعہ اٹھاتے ہیں کہ کیا اب بھی کوئی کم بخت باقی ہے جس کا خیال ہو کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی؟
رات ادویات کی قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافے کی خبر ملی تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت جناب خالد حسین مگسی کو فون کیا۔ وہ فرمانے لگے: "مجھے تو علم ہی نہیں حکومت نے کوئی ایسا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہ ہم سے پوچھا گیا، نہ مشاورت کی گئی نہ کسی نے بتانے کی زحمت گوارا کی۔ ہمیں بھی آپ ہی سے پتا چل رہا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اتنا ظالمانہ اضافہ ہو گیا ہے۔"
سوچنے کی بات یہ ہے کہ قانون سازی ہوتی ہے تو پارلیمان سے رجوع کرنے کی بجائے صدارتی آرڈی ننس آ جاتا ہے اور انتظامی فیصلے اس خوفناک انداز سے کرتے وقت ایوان کی کمیٹی سے پوچھنا تو کیا کوئی بتانا بھی پسند نہیں کرتا۔ پنجاب حکومت کے ترجمان افتخار چودھری فرمانے لگے کہ آصف بھائی یہ فیصلہ کھڑے کھڑے نہیں ہو گیا، 29 میٹنگز کے بعد جا کر یہ فیصلہ ہوا۔
اب میرے جیسا طالب علم سوچ رہا ہے کہ کیا عالی شان فیصلہ سازی ہے کہ 29 عدد میٹنگز فرما لی گئیں کہ قیمتوں میں 260 فیصد تک اضافہ کرنا ہے لیکن قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کو کسی نے زحمت دینا گوارا نہیں کیا کہ ہم میٹنگ پر میٹنگ فرماتے جا رہے ہیں تو آپ بھی اپنی رائے دے دیجیے کہ عوام پر یہ نیا عذاب کس شان اور کروفر سے اتارا جائے۔
رات اسی پریشانی میں پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی سے بات ہوئی تو انہوں نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی محکمہ ہے تو ڈرگز ریگولیشن وفاق کے پاس کیوں ہے، ادویات کی قیمتوں کا تعین بھی صوبوں کو کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔
میں نے عرض کی یہ سوال تو آپ سے بنتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم آپ نے پاس کی، اس کا کریڈٹ آپ لیتے ہیں تو اس کی خامیوں کی ذمہ داری بھی آپ ہی کو اٹھانا ہو گی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے جزئیات طے کیے بغیر جلدی میں اٹھارویں ترمیم پاس کر کے اپنے تئیں صوبوں کو با اختیار کر دیا مگر حقیقت میں کھچڑی بنا کر چلے گئے؟ کہنے لگیں دیکھیے بہت سے معاملات دھیرے دھیرے طے ہوتے رہتے ہیں۔ اب تک تو کسی نے 260 فیصد تک ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھائی تھیں، یہ کام تو اس حکومت نے کیا۔
آپ اس حکومت کی فیصلہ سازی کا عمل دیکھیے اور سر پیٹ لیجیے۔ 16مئی 2019ء کو جب اچانک ادویات کی قیمتوں میں سو فیصد کے قریب اضافہ ہو گیا، تو مشیر صحت نے ایک پریس کانفرنس فرمائی۔ انہوں نے عوام کو بتایا کہ وزیر اعظم نے انتہائی سخت نوٹس لے لیا ہے اور انہوں نے حکم دیا ہے کہ ادویات کی قیمتیں 72 گھنٹوں میں واپس لائی جائیں گی۔ ساتھ ہی انہوں نے قوم کو خوش خبری سنائی کہ یہ ساری واردات اس لیے ہوئی کہ پہلے کی حکومتوں نے اچھے قانون نہیں بنائے تھے۔ لیکن اب وزیر اعظم صاحب آ گئے اور انہوں نے حکم دے دیا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں گی۔ اگلے کئی دن سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے وابستگان واہ صاحب واہ، پہلی بار صاحب پہلی بار، اب قانون سازی ہو گی جیسے رجز پڑھتے رہے۔
اور اب جب وہ قانون سازی بھی ہو چکی اور سخت نوٹس بھی لیا جا چکا، تو حالت یہ ہے کہ شوکت خانم ہسپتال سے منگوائے گئے مشیر صحت بے نیازی سے فرما رہے ہیں کہ قیمتیں اس لیے بڑھائیں کہ ادویات لوگوں تک پہنچ سکیں۔ نا اہلی کا اس سے حسین اعتراف شاید ہی کسی حکومت نے کیا ہو۔ یعنی مشیر صحت یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ نکما، نالائق اور فضول ہو چکا ہے اور اگر ہم فارما سوٹیکل کے دبائو پر ادویات کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو آپ کو دوا ہی نہیں ملنی تھی۔ معلوم انسانی تاریخ میں ایسی مسیحائی پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھ جائیں تو ارشاد ہوتا ہے شکر کرو اس سے زیادہ نہیں بڑھائیں حالانکہ ہم اس پر قدرت رکھتے تھے اور ادویات کی قیمتوں میں 260 فیصد تک اضافہ فرما کر ہاتھ نچائے جا رہے ہیں کہ شکر کرو مل تو رہی ہیں۔
یوں لگتا ہے سچ مچ کا سونامی آ گیا ہے۔ اب یہ اہم نہیں کہ کیا کچھ تباہ ہو گیا۔ اہم اب یہ ہے کہ کیا کچھ بچا لیا گیا۔ مہنگی ہو گئیں تو کیا ہوا، مل تو رہی ہیں نا۔ ورنہ جہاں سونامی آ جائے وہاں ادویات مل سکتی ہیں کیا؟
سیاسی جماعتوں کے کارندے، جنہیں تفنن طبع میں کارکن کہا جاتا ہے، اکثر آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آئین کی بالا دستی سے یہاں مراد صرف جمہوری آمروں کے حق اقتدار کا تحفظ ہے۔
عام آدمی کی حیثیت تو یہ ہے کہ آئین کی روشنی میں صحت آپ کا بنیادی انسانی حق نہیں ہے۔ آئین کی گردانیں ہم نے بہت سنیں لیکن کسی کو آج تک توفیق نہ ہو سکی کہ وہ آئین میں صحت کو بنیادی انسانی حق قرار دے دیتا۔ تو جب آئین پاکستان میں صحت آپ کا بنیادی انسانی حق ہی نہیں تو حکومت آپ کو سستی ادویات کیوں دے؟
اچھا مشورہ یہی ہے کہ مر جائو، سکون قبر میں ہی ملے گا۔