Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Aeen Ki Tashreeh, Chand Guzarshat

Aeen Ki Tashreeh, Chand Guzarshat

صوبوں میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس پر سماعت کرنے والے 9 رکنی بنچ میں سے 4 معزز جج صاحبان نے خود کو اس بنچ سے الگ کر لیا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے کہا ہے کہ باقی بنچ مقدمے کی سماعت کرے گا۔ اس موقع پر چند سوالات بہت اہمیت اختیار گئے ہیں۔ ان تمام لوگوں کوجو سیاسی ہیجان سے با لاتر ہو کر معاملے کو قانون اور جورسپروڈنس کے تناظر میں سمجھنے کا ذوق رکھتے ہیں، چند سوالات پرغور کرنا چاہیے۔

آئینی معاملات جب عدالت کے سامنے آتے ہیں تو عدالت گویا آئین کی تشریح کر رہی ہوتی ہے۔ یہ تشریح بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنا آئین خود۔ بسا اوقات یہ بھی محسوس کیا جاتا ہے کہ تشریح اتنی با معنی ہوگئی ہے کہ اسے آئین کی شرح کی بجائے آئین سازی تصور کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر جب آرٹیکل 63(a) کے تحت ڈی فیکشن کلاز کے تحت کچھ اراکین کی نا اہلی ہوئی۔ توسوال اٹھا کہ یہ نا اہلی کتنی مدت کے لیے ہوگی۔ آئین میں منحرف اراکین پارلیمان کے ووٹ کے بارے میں یہ تو لکھا ہے کہ وہ اس کی پاداش میں ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ اب یہ تو تشریح کے زمرے میں آتا ہے کہ اس نا اہلی کی مدت کیا ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے ووٹ مسترد کرنے کی بات بھی آئین کی شرح تصور کی جائے گی یا اسےآئین سازی، میں شمار کیا جائے گا؟ کیونکہ آئین میں تو کہیں نہیں لکھا کہ ان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہوگا۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا آئین کی تشریح کے نام پر آئین میں کسی نکتے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے؟

آئین سازی کے بارے میں تو بہت غیر معمولی اہتمام ہے کہ پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین سازی کرسکتی ہے اور آئین میں کسی ترمیم کے لیے بھی پارلیمان کی دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ آئین کی شرح کے لیے بھی کوئی غیر معمولی اہتمام ہونا چاہیے یا نہیں؟ پارلیمان کو آئین میں کسی بھی قسم کے اضافے کے لیے دو تہائی درکار ہے تو کیا آئین کی تشریح کے لیے اسی طرح کا کوئی غیر معمولی انتظام نہیں ہونا چاہیے؟ نو رکنی بنچ میں سے جب چار جج صاحبان الگ ہو جائیں تو اس صورت چار مزید جج شامل کیے جائیں؟ یا فل کورٹ کے سامنے یہ معاملہ رکھنا چاہیے؟ یا کوئی اور صورت تلاش کرنی چاہیے؟

یعنی جن مقدمات کی نوعیت ایسی ہو کہ ان میں آئین کی شرح ہونے جا رہی ہے وہ مقدمات کتنے ججوں پر مشتمل بنچ کو سننے چاہیں؟ امریکہ میں آئینی مقدمات پوری عدالت بیٹھ کر سنتی ہے جس میں تمام جج شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ البتہ محض آئینی عدالت نہیں بلکہ یہ فائنل کورٹ آف اپیل بھی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہر مقدمہ فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے لیکن کیا بھی ممکن نہیں کہ کوئی ایسا آئینی بندوبست کیا جائے کہ آئینی مقدمات جب اس کے سامنے آئیں تو پھر امریکہ کی طرح ان مقدمات کو فل کورٹ بیٹھ کر سنے جس میں تمام معزز جج شامل ہوں۔ تاکہ آئین کی جو بھی تشریح کی جائے وہ دو، تین، چار یا پنچ ججوں کی بجائے پوری سپریم کورٹ کی طرف سے کی جائے؟ نیز یہ کہ ایسے اہم آئینی معاملے کی سماعت کرنے والے بنچ میں سینیئر ترین جج جناب قاضی فائز عیسی کا شامل نہ ہونا بی قابل غور ہے۔ بجا کہ بنچ بنانا جناب چیف جسٹس کا اختیار ہے اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا وہ ان کے اختیار پر تنقید کرے لیکن جہاں معاملہ آئین کی تشریح کا ہو وہاں احتیاط کے تقاضے دگنے ہو جاتے ہیں۔

صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے جس معاملے کا سپریم کرٹ نے سوموٹو نوٹس لیا، اس پر بھی شاید قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آئین میں از خود نوٹس کا اختیار صرف وفاقی شرعی شرعی عدالت کو دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے بارے میں از خود نوٹس کی بات دستور میں صراحتا کہیں نہیں لکھی۔ البتہ آرٹیکل 184 کی ذیلی دفعہ 3کے تحت عوامی اہمیت کے کسی ایسے معاملے پر جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہو سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، اسے سوموٹو، اختیار ہی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اختیار پھر کس کو حاصل ہے؟ سپریم کورٹ کے ہر جج کو یا صرف جناب چیف جسٹس کو؟ قاضی فائز عیسی صاحب نے جب صحافیوں کے معاملے میں ایک سوموٹو لیا تو ایک لارجر بنچ تشکیل دے کر طے کیا گیا کہ یہ اختیار ہر جج کے پاس نہیں، صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئین میں جہاں یہ اختیار دیا گیا ہے، وہاں توچیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کا لفظ لکھا ہے؟ تو کیا اب اس پر غور نہیں ہونا چاہیے کہ سوموٹو کا تعین سپریم کورٹ کیسے کرے؟ کیا یہ صرف چیف جسٹس کی صوابدید ہے یا سپریم کورٹ کے سارے جج مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کریں کہ کسی معاملے میں سوموٹو لینا ہے یا نہیں۔

نیز یہ کہ سو موٹو کا تعلق اگر انتخابات سے متعلق کسی آئینی نکتے سے ہو تو پھر اس کی سماعت کے بنچ کے تعین کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟

ان تمام معاملات پر قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ پارلیمان قانون سازی نہیں کرتی وہ ' دیگر امور' میں مصروف رہتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی انتخابی یا اآئینی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے آئین اور قانون میں واضح رہنمائی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کی تعبیر و شرح کے لیے متبادل بیانیہ بھی اسی آئین و قانون میں موجود ہے۔ اب وضاحت کے لیے معاملات عدالت میں لائے جاتے ہیں اور جس فریق کی مرضی کا فیصلہ نہ ہو وہ عدالت کے خلاف بیانیہ کھڑا کر دیتا ہے۔ اس مشق نے نظام قانون و انصاف کو گہرا گھاؤ دیا ہے۔ اس سلسلے کو تھم جانا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان اپنا کردار ادا کرے اور انتخابی قوانین میں جہاں کہیں کوئی ابہام اور نقص موجود ہے اور دور کر کے قانون کو جامعیت اور قطعیت کے ساتھ وضع کیا جائے۔

جوں جوں جمہوریت آگے بڑھے گی انتخابی قوانین کی قباحتیں اور نقائص سامنے آتے رہیں گے۔ ایسے میں بنیادی فریضہ پارلیمان کا ہے جس کا ایک دن کا اجلاس اس قوم کو ساڑھے چھ کروڑ میں پڑتا ہے اور جس کے اراکین کو بنیادی تنخواہ کے علاوہ سمپچووری الاؤنس، ٹیلی فون الاؤنس، ایڈ ہاک ریلیف، کنوئنس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس، ہاؤسنگ الاؤنس، سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیکی ائیر پورٹ سے اسلام آباد تک بزنس کلاس کے ریٹرن ٹکٹوں، تاحیات بائیسون گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل کی سہولیات سمیت جانے کیا کیا مراعات میسر ہیں۔ اس سب کے بعد اگر یہ قانون سازی کا اپنا بنیادی فریضہ بھی ادا نہیں کرتے اور ہر معاملہ تنازعہ بن کر عدالت تک جا پہنچتا ہے تو پھر انہیں کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran