پاکستان کے سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کو توسمجھے بغیر مشق ستم بنایا جاتا ہے اور آئے روز ریاست کو کٹہرے میں کھڑا کر لیا جاتا ہے لیکن حیران کن طور پر اس سٹریٹیجک ڈیپتھ کو کبھی زیر بحث نہیں لایا گیا جو افغان حکومتیں پاکستان میں تلاش کرتی رہیں اور جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔
قیام پاکستان کے وقت سے ہی افغانستان اپنے سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کے تحت پاکستان کی سلامتی سے کھیلتا رہا۔ ہمارے بعض قوم پرستوں کو متحدہ ہندوستان میں رہنے پر تو کوئی اعتراض نہ تھا اور انہوں نے آخری دم تک اس کی کوشش کی کہ صوبہ سرحد بھارت کے ساتھ رہے اور تقسیم نہ ہونے پائے لیکن جیسے ہی قیام پاکستان نوشتہ دیوار کی صورت ان کے سامنے آیا انہوں نے پشتونستان کی بات بھی شروع کر دی اور افغان قوم کی وحدت کا نعرہ بھی بلند کر دیا۔۔ متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے انہیں پشتونستان یاد آیا نہ لر او بر یو افغان، کا نعرہ بلند کیا گیا لیکن پاکستان حقیقت بننے لگا تو یہ دونوں نعرے وجود میں آ گئے۔ کیا کوئی سوچنے کوتیار ہے کہ یہ قوم پرست کس کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے آلہ کار بن رہے تھے؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دینے والا ملک افغانستان ہی تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب افغان قیادت اپنے سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کے تحت افغانستان کی سرحد پشاور سے بھی آ گے تک لانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور بہت سارے قوم پرست اس کی سہولت کاری کر رہے تھے۔
یہ افغانستان کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی سہولت کاری ہی تو تھی کہ قوم پرستوں نے پہلے کہا ہم رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہم آزاد پشتونستان چاہتے ہیں اور پھر جب پاکستان قائم ہوگیا تو کہا ہم پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اس شرط پر بیٹھ سکتے ہیں کہ ہمارا کسی بھی وقت پاکستان سے الگ ہونے کا حق تسلیم کیا جائے۔
یہ بھی افغانستان کی سٹریٹیجک ڈیپتھ ہی تھی کہ قیام پاکستان کو حقیقت بنتے دیکھا تو تب کے افغان وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے قائم کر دی گئی اور طے کیا گیا پاکستان بنتے ہی یہ زلمے گڑ بڑ پھیلائے گی اور افغان فوج پاکستان پر حملہ کر دے گی۔
پشتون تحریک کے سید جمال شاہ کے مطابق اس سلسلے میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں افغان سٹریٹیجک ڈیپتھ کی زلفیں سنواری گئیں۔ اس میں چیف آف سٹاف سردار داؤد، ان کے چچا وزیر دفاع سردار شاہ محمود اور ایک پاکستانی سیاسی رہنما شریک تھے۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ تک نے لوئی جرگہ میں پاکستان کے خلاف تقریر کی۔ بھارت میں افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ نے کہا بس آج کل میں قبائلی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی مرکزی اسمبلی کا انتخاب کرکے حکومت قائم کر لیں گے۔ افغان وزیر اعظم داؤد خان نے تو پاکستان میں بغاوت کے لیے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی اور اس کا قلمدان خود سنبھالا۔ پاکستان کے سفارت خانوں پر افغانستان میں حملے کیے گئے اور وہاں لہراتے پاکستان کے پرچم اتار کر پشتونستان کے پرچم لگا دیے گئے۔
افغانستان کی اس سٹریٹیجک ڈیپتھ کی واردات کا اعترف خود جناب باچا خان صاحب نے کیا۔ باچا خان مرحوم انڈیا ٹوڈے میں اکتیس مارچ 1980 کو شائع ہونے والے انٹرویو میں کہتے ہیں: "پشتونستان کے مسئلے پر افغان حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہمارا استحصال کیا۔ ہمارے لوگوں نے اس کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا۔ داؤد نے پشتونستان پر بات کرنی ہی چھوڑ دی تھی اور ترکئی نے بھی یہ ایشو صرف اس لیے اٹھایا کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا"۔ (یہ انٹرویو اب بھی انڈیا ٹوڈے کی سائٹ پر موجود ہے)۔
معرووف دانشور اور My Enemy's Enemy کے مصنف پلووال اوی ناشن کے مطابق افغانستان نے نہ صرف پشتون علاقوں میں یہ کام کیا بلکہ بلوچ علاقوں میں بھی پاکستان دشمنی کے حوالے سے متحرک رہا۔ بلوچستان میں بغاوت کے چاروں ادوار میں باغی عناصر کو افغان حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی۔
راجیو شرما کے مطابق 1949ء میں سردار دائود خان کی حکومت نے پاکستان دشمن عناصر کو مکمل تعاون فراہم کیا اور ان کی سرپرستی کی۔ کابل میں 1970ء کی بغاوت کے زمانے میں افغان حکومت نے ساٹھ کیمپ قائم کیے ہوئے تھے جہاں پاکستان دشمن عناصر کو پناہ اور تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ دائود خان کی پاکستان دشمن سرگرمیاں اس وقت کچھ کم ہوئیں جب اسے احمدشاہ مسعود کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن دائود کا تختہ الٹ کر جب نور محمد ترکئی اقتدار میں آیا تو یہ تربیتی کیمپ پھرسے فعال ہو گئے۔ ابھی ماضی قریب میں حامد کرزئی بھی پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی کرتے رہے اور گارڈین کے مطابق کرزئی اس بات کو خود بھی تسلیم کر چکے ہیں۔
پاکستان کے خدشات حقیقی تھے۔ پاکستان ایک مستطیل میں پھیلا ہے جس کی لمبائی زیادہ مگر چوڑائی کم ہے۔ جنوبی کونے میں سر کریک کے ڈیلٹا سے لے کر شمالی کونے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تک بھارت بیٹھا ہے، جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد قریب 2912 کلومیٹر ہے۔ دوسری جانب رباط جعلی سے لے کر واخان تک افغانستان ہے جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے۔ اب اگر بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی دشمن ہو جائے تو پاکستان ان دونوں کے بیچ میں سینڈوچ بن جائے جس کے مشرق میں تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر بھی دشمن ہو اور مغرب میں ڈھائی ہزار کلومیٹر سرحد پر بھی دشمن بیٹھا ہو۔
ان حالات میں پاکستان یہ بات سوچنے پر مجبور ہوا کہ ایک طرف بھارت ہے اب اگر دوسری جانب افغانستان کی دشمنی اسی طرح جاری رہتی ہے تو پاکستان تو دو دشمن قوتوں کے درمیان سینڈ وچ بن جائے گا۔ اس سٹریٹیجک سینڈ وچ، بننے سے بچنے کے لیے پاکستان ایک دوست افغانستان چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہاں بھارت نواز حکومت نہیں بلکہ پاکستان دوست حکومت ہو۔ یہ پاکستان کا سٹریٹیجک ڈیپتھ، کا تصور ہے اور ایک منطقی تصور ہے۔
غوور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا تصور دفاعی ہے۔ جب کہ افغانستان کا تصور جارحانہ ہے۔ افغانستان نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کیا جب کہ پاکستان نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ افغانستان میں پاکستان کے علاقے پر دعوے کیے جاتے ہیں، پاکستان نے کبھی بھی افغانستان کی ایک انچ زمین پر دعوی نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود بعض حلقے پاکستان کو تو سینگوں پر لیے رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف نگاہ التفات کرنے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہو سکی۔ ان کے نزدیک ہر خرابی کا ذمہ دار ہے۔ یہ کبھی مطالعہ پاکستان کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کبھی نظریہ پاکستان کا۔ یہ وہ فکری نسل ہے جو این جی اوز اور غیر ملکی اداروں کے ملازمت پیشہ خواتین و حضرات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ہمہ جہت قسم کی فکری واردات ہے جس کی سنگینی کا نہ ریاست کو احساس ہے نہ معاشرے کو۔ دانشوری کا معیار اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ پاکستان اور اس سے جڑی ہر نسبت کو طنز و حقارت کا عنوان بنا دیا جائے۔ اس واردات اور اس کے محرکات پر آئندہ کالموں میں تفصیل سے بات کریں گے۔