گزشتہ کالم میں ذکر کیا گیاکہ کس طرح انتخابی عمل کو عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا گیا اور قانون سازوں نے پارلیمان میں بیٹھ کر کس طرح اپنے مفاد میں ایسی قانون سازی کی ہے کہ عملی طور پر قانون بے معنی ہو کر رہ گیا اوروہ جنگل کے بادشاہ قرار پائے، انڈے دیں یا بچے دیں، قانون کی مجال نہیں ان پر گرفت کر سکے۔ آج اس دست ہنر کی مزید ہنر کاری کا جائزہ لیتے ہیں۔
اہل سیاست نے پارلیمان کے اندر تشریف فرما ہو کر اس انتخابی نظام کی یوں صورت گری کی ہے کہ عام آدمی اس نظام میں ایک شودر کے طور پر تو اپنا کردار ادا کر سکتاہے لیکن پارلیمان کے دروازے اس پر بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ واردات قانون کے نام پر کی گئی ہے اور الیکشن ایکٹ کا حصہ ہے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
انتخابی اخراجات کی حد کے تعین کے لیے قانون موجود ہے، اقوال زریں کی صورت ماحول کو منور کر رہا ہے لیکن اس میں تجربہ کاروں کے دست ہنر نے ایسا کمال دکھا دیا ہے کہ اس قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ قانون کا کہنا ہے کہ اگر انتخابی اخراجات کی حد یعنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہو جائے تو امیدوار نا اہل قرار پائے گا اور سزا ملے گی۔ لیکن ان اضافی اخراجات کے ثبوت کے نام پر قانون میں ایک ایسی واردات فرما دی گئی ہے کہ اس کا ثبوت عملا ممکن ہی نہیں رہا۔
قانون یہ کہتا ہے کہ اضافی اخراجات اگر امیدوار کے علم میں بھی ہوں تو یہ جرم نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ثابت کرنا ہوگا کہ امیدوار نے ان اضافی اخراجات کی اجازت بھی دی تھی۔ قانون ' اجازت ' کے ثبوت طلب کرے گا۔ اب اخراجات کے ثبوت توکسی نہ کسی شکل میں مل سکتے ہیں، لیکن یہ اجازت کے ثبوت کہاں سے آئیں گے؟
یعنی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ امیدوار کے دوست احباب اس پر جی بھر کر انوسٹ کر لیں (تا کہ اس کے جیت جانے کے بعد قومی خزانے سود سمیت واپس لے لیں ) یا اپنا کالا دھن ان کے ذریعے سے خرچ کرواتا رہے قانون کو کوئی پرواہ نہیں، امیدوار کی انتخابی مہم میں پانی کی طرح پیسہ بہا دیا جائے اور امیدوار اس سب کو دیکھ کر مسکراتا رہے تو قانون کا مزاج نازک ہر گز برہم نہیں ہوگا۔ قانون کو حرکت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حضور یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ یہ اخراجات امیدوار کی اجازت سے ہوئے تھے۔ یہ اجازت کے ثبوت کون لائے گا؟ جب ثبوت ہی نہیں ہوگا تو قانون بھائی جان دہی کے ساتھ قلچہ کھائیں گے اور امیدوار کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھیں گے اور الیکشن کمیشن ہر شکایت پر گنگنانے لگے گا کہ نک دے کوکے کی طرح اخراجات کی اجازت کا ثبوت بھی لبھ لبھ تھکی آں نئیں ملیا۔
قانونی تماشا دیکھئے تا کہ آپ جان سکیں کہ کیسے پانی میں قانونی مدھانی چلا کر یہاں قانون سازیاں ہو جاتی ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 134 کے تحت انتخابات کے بعد امیدواران فارم سی پر اپنے اخراجات کی تمام تفصیل ریٹرننگ افسران کو جمع کرائیں گے۔ اس کے بعد دفعہ 136 کے تحت ان کی سکروٹنی ہوگی کہ یہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ لیکن الیکشن ایکٹ اس کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ یہ سکروٹنی کیسے ہوگی؟ نہ ہی عام آدمی میں سے کسی کو پرواہ ہے کہ وہ یہ سوال اٹھائے۔
کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی قاعدہ، ضابطہ اور طریق کار موجود ہے جس سے وہ امیدواران کے اخراجات کی جمع کرائی گی تفصیل کو جانچ سکے کہ یہ درست ہیں یا نہیں؟
کیا الیکشن کمیشن نے کوئی ذیلی ادارہ بنا رکھا ہے جو انتخابی مہم کے دوران جائزہ لے سکے کہ کس امیدوار نے کتنے اخراجات کیے؟ کوئی ہے تو اس کا نام کیا ہے؟ وہ کام کیسے کرتا ہے؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا عوام الناس کوآ گاہ کیا جاتا ہے کہ فلاں نمبر پر کسی بھی بے ضابطگی کی شکایت درج کرائیں؟ کیا کہیں کوئی انتظام کیا جاتا ہے کہ ہر حلقے کے انتخابی اخراجات پر نظر رکھی جائے؟
کیا الیکش کمیشن کے پاس کوئی نظام موجود ہے جو ہر حلقے اور ہر امیدوار کے اخراجات کا خود جائزہ لے یا کم از کم اتنا با خبر ضرور ہو کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ امیدواران نے اخراجات کی جو تفصیل جمع کروائی ہے وہ درست یا جعلی ہے؟
اگر ایسا کوئی انتظام نہیں ہے اور سب کچھ امیدواران کے جمع کردہ اعداد و شمار پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے تو کیا اس سے انتخابی اخراجات کو مقرر کردہ حدود میں رکھا جا سکتا ہے؟
یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک کروڑ میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جا سکے۔ اتنے پیسوں میں تو حلقے بھر میں انتخابی کیمپ نہیں لگائے جا سکتے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم تو الیکشن والے دن کے انتظامی معاملات اور ٹرانسپورٹیشن پر خرچ ہو جاتی ہے۔
بجائے اس کے کہ اس سارے عمل میں با معنی اصلاح کی جاتی اور انتخابی اخراجات کو کم کیا جاتا، یہاں دکھاوے کے لیے ایک قانون بنا دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت ایک رسمی کارروائی کرکے امیدواران اور الیکشن کمیشن سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے ہیں۔
سب کو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کے حقیقی اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور الیکشن ایکٹ کے تحت جمع کرائی گئی تفصیلات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن خاموش رہتا ہے اور جیت کر ایوان میں پہنچنے والے اراکین سچے، پاک باز، نیک، دیانت دار، امین اور پارسا سمجھے جاتے ہیں۔
سکروٹنی کے عمل کو نا معتبر بنانے میں اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 136 کی ذیلی دفعہ 2 میں پوری کر دی گئی ہے۔ اس میں بڑا دلچسپ نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن امیدواران کی جانب سے انتخابی اخراجات کی جمع کرائی گئی تفصیل کی سکروٹنی قانون میں دی گئی مدت (90 دن) کے اندر مکمل نہیں کر سکا تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ لکھا ہے کہ اس صورت میں سمجھا جائے گا کہ ان کی سکروٹنی مکمل ہوگئی ہے اور یہ جمع کرائے گئے اعدادو شمار درست ہیں اور انہیں قبول کر لیا گیا ہے۔
امیدواران پورے اہتمام سے اخراجات کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں، الیکشن کمیشن پوری وارفتگی سے اس جھوٹ پر یقین کر لیتا ہے۔ جھوٹ پر یہ سارا بندوبست کھڑا ہے۔ اور اس جھوٹے بندوبست میں سے الیکشن کمیشن سچے امانت دار راست باز، متقی، نیک اور پاک قسم کے امیدوار ان کو الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار دے کر عوام سے کہتا ہے کہ لیجیے عزیز ہم وطنو، یہ ہیں وہ کردار کے غازی، بے داغ ماضی، آپ کے ووٹ کے جائز حقدار، نہ بکنے والے، نہ جھکنے والے۔ ان کے لیے ووٹ دیجیے، یہ قومی فریضہ ہے۔