سوال یہ ہے کہ یروشلم کا دفاع کس کی ذمہ داری تھی؟ جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جب اپنے ہی چارٹرکو پامال کرتے ہوئے اور اقوام متحدہ ہی کی سب کمیٹی کی رپورٹ کو ٹھکراتے ہوئے فلسطین کو تقسیم کرکے یہاں فلسطین کے ساتھ ایک یہودی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کی تو اسی قرارداد میں یہ اصول طے کیا کہ القدس (یروشلم) کسی بھی ریاست کا حصہ نہیں ہوگا، اس کی بین الاقوامی حیثیت ہوگی اور یہ اقوام متحدہ کے انتظام میں دیا جائے گا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یروشلم اور مقامات مقدسہ اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اس شہر کا دفاع بنیادی طور پر اقوام متحدہ کا فریضہ تھا۔ وہ اس کی ادائیگی میں مسلسل ناکام کیوں ہے؟ یہ اتفاق ہے، بے بسی ہے یا اہتمام ہے؟
القدس (یروشلم) فلسطین کا حصہ تھا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کرتے ہوئے جہاں یہودی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا وہیں اس شہر کو فلسطین سے الگ کر دیا۔ جنرل اسمبلی قرارداد 181 کا پارٹ 3 یروشلم شہر سے متعلق ہے۔ اس قرارداد میں چار اصول طے کیے گئے:
1۔ یروشلم شہر نہ اسرائیل کا حصہ ہوگا نہ فلسطین کا۔
2۔ یہ ایک سپیشل اور بین الاقوامی حکومت ہوگی جو یروشلم کے معاملات کو دیکھے گی۔
3۔ یہ سپیشل بین الاقوامی حکومت یہاں اقوام متحدہ کی جانب سے حکومت کرے گی۔
4۔ اس خصوصی بین الاقوامی حکومت کا تعین بھی ا قوام متحدہ کرے گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وضع کردہ حدود سے باہر اسرائیل کے جتنے قبضے ہیں، اقوام متحدہ نے انہیں ناجائز قرار دے رکھا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن UNCCP بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کر چکا ہے۔ خود اسرائیل نے مصر اردن اور شام کے ساتھ جو معاہدہ 1949 میں کیا تھا جسے Armistice agreement کہتے ہیں، اس کے مطابق بھی یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔
مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ 1967 کی جنگ میں ہوا۔ اس سے پہلے مشرقی یروشلم کے مقامات مقدسہ اردن کے پاس تھے۔ اس جنگ میں مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ تو ہوگیا لیکن اقوام متحدہ نے اس قبضے کو ماننے سے انکار کر دیا اور قرار دیا کہ یہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی دستاویزات اور انٹر نیشنل لاء کے مطابق اس ناجائز قبضے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس علاقے کو آج بھی اسرائیل نہیں کہا جاتا بلکہ اسے "مقبوضہ فلسطین" کہا جاتا ہے۔
جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 22 نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں اسرائیل کو مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا گیا۔ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور اسے یروشلم سے نکل جانے کا کہا گیا۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ کوئی ایک ووٹ بھی مخالفت میں نہیں آیا، نہ ہی کوئی ملک ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔ امریکہ نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ خود اسرائیل نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔
مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے نا جائز قبضے کو جنرل اسمبلی میں بھی زیر بحث لایا گیا۔ 4 جولائی 1967 کو قرارداد نمبر 2253 پاس کی گئی اور یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا۔ اس قرارداد کا ڈرافٹ پاکستان نے تیار کیا تھا۔ 99 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کوئی ایک ملک بھی ایسا نہ تھا جس نے مخالفت میں ووٹ دیا ہو۔
اس قرارداد میں پانچ باتیں کہی گئیں:
1۔ اسرائیل ایسے اقدامات کر رہا ہے جس سے وہ اس شہر کا سٹیٹس بدلنا چاہتا ہے۔
2۔ اسرائیل کے یہ اقدامات ناجائز ہیں۔
3۔ اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ ایسے اقدامات واپس لے اور مزید ایسے اقدامات سے باز رہے جن سے اس شہر کی حیثیت پر فرق پڑتا ہو۔
4۔ سیکرٹری جنرل سے کہا گیا کہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے معامالہ رکھے اور سات دن کے اندر اندر رکھے۔
لیکن جو اسرائیل خود جنرل اسمبلی کی محض ایک قرارداد سے وجود میں آیا اس کے نزدیک جنرل اسمبلی کی ان قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں جو اس کی راہ میں حائل ہوں۔
چنانچہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 2253 کے بعد ایک اور قرارداد پاس کی قرارداد نمبر 2254، اور اس میں اسرائیل کی مذمت فرما دی کہ وہ اس کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہا اور ایک بار پھر سے اسرائیل سے وہی مطالبہ کیا جو اس سے پہلی قرارداد میں کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی سیکرٹری جنرل سے کہا گیا کہ وہ سلامتی کونسل کے علم میں معاملہ لائے تا کہ ا س قرارداد پر عمل ہو سکے۔
1980 میں اسرائیل نے اپنا دارالحکومت یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو سلامتی کونسل نے دو مزید قراردادوں (قرارداد نمبر 476 اور قرارداد نمبر 478) میں اسرائیل کے اس ااقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا کہ جو شہر اسرائیل کو علاقہ ہی نہیں ہے وہ اس شہر میں دارالحکومت کیسے منتقل کر سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی نے بھی اس اقدام کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا۔ جنرل اسمبلی نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی قرار دیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 672 میں ایک بار پھر واضح کیا گیا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے اور یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ 1980 میں جب اسرائیل یروشلم کو دارالحکومت قرار دینے لگا تو مسلم دنیا نے شدید مزاحمت کی تھی اور اعلان کر دیا تھا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے گا اس سے تعلقات ختم کر دیے جائیں گے۔ اس دبائو کے تحت اسرائیل ایسا نہ کر سکا۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ مسلم دنیا دبائو ڈالنا تو دور کی بات ہے مذمت کے دو لفظ بولنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ قانونی پوزیشن البتہ وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی ہے کہ یروشلم اورمسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی روشنی میں بھی ناجائز ہے جن قراردادوں کے نتیجے میں اسرائیل قائم ہوا۔
یہاں پر دو بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ اگر اقوام متحدہ نے یروشلم کو اپنی نگرانی میں لیا تھا تو اب وہ اس کا دفاع کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟ کیا یہ اس کا فریضہ نہیں ہے کہ یروشلم کی اس حیثیت کو برقرار رکھے جو اس نے اپنی قرارداد میں طے کر دی تھی؟ وہ اگر اس میں ناکام ہوتی ہے تو کیا پھر قرارداد نمبر 181 فرسودہ نہیں ہو جاتی؟ اور فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام پر ہی سوال نہیں اٹھتے؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ اسرائیل اقوام متحدہ سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور اس کے زیر انتظام علاقے پر بھی قابض ہو چکا ہے؟