سحر و افطار کی رونقیں تو بچوں کی چہچہاہٹ سے قائم ہیں لیکن وہ آواز کہیں نہیں سنائی نہیں دے رہی، جو بچپن میں گائوں کی مسجد سے گونجا کرتی تھی۔" امیر علی، اللہ دا ناں لے کے گولا چلا دے، چلا دے گولا"۔ اپنا بچپن کہیں بہت پیچھے رہ گیا لیکن اس کی یادیں آج بھی ساتھ چل رہی ہیں۔
گائوں میں سارا خاندان ساتھ ساتھ آباد تھا۔ جڑی ہوئی کشادہ حویلیاں۔ کم و بیش ایک جیسی ترتیب۔ تھوڑے سے حصے پر کمرے، کشادہ برآمدہ اور پھر کھلا وسیع صحن۔ صحن کے ایک کونے میں گھڑونجی، پر رکھے کورے گھڑے، جن میں ایک پہر پانی پڑا رہتا تو یوں ٹھنڈا ہو جاتا، جیسے بیسل کے چشموں سے بہہ کر آ رہا ہوں۔ صحن کے وسط میں بلی سے بچا کر تار کے ساتھ لٹکے چھکے، میں دہی کے لیے جاگ لگا کر رکھا ہوا دودھ جو فریج کے باوجود چھکے، میں ہی رکھا جاتا کہ اس کا ذائقہ الگ ہوتا تھا، وسط صحن میں کینو، سنبل اور بادام کے پودے جن پر صبح دم چڑیاں یوں شور مچاتیں کہ آنکھ کھل جاتی۔
یہیں پاس ہی بیٹھ کر افطار کیا جاتا۔ چولہے پر لکڑی کی آگ سے کھانا تیار ہوتا اور میں وہیں ماں کے پاس بیٹھ کر افطاری کرتا۔ ٹی وی چینلز تو تھے نہیں اور گھڑی کا تردد بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ سب کے کان جامع مسجد کے لائوڈ سپیکر کی طرف لگے ہوتے تھے۔ چاچا گل محمد مائک آن کرتا، پھر اسے انگلی مار کر چیک کرتا کہ آواز جا رہی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد وہ جاں فزا اعلان ہوتا: " امیر علی، اللہ دا ناں لے کے گولا چلا دے، چلا دے گولا"۔۔۔۔ اور پھر چاچا امیر علی گولا چلاتا جس کی آواز گائوں کے قرب و جوا میں میلوں دور تک پھیلے چکوں اور بستیوں تک جاتی۔" ٹھاہ" کی اس آواز کے ساتھ ہی افطار ہوتا اور اسی کے ساتھ سحر مکمل ہوتا۔
دونوں کی کیا غضب کی ٹائمنگ تھی، جیسے کمپیوٹر میں کوئی پروگرام فیڈ ہوا ہو۔ ادھر چاچا گل محمد آواز لگاتا " چلا دے گولا " ادھر چاچا امیر علی حکم کی تعمیل کر دیتا۔ امیر علی کا گولا ٹھس، ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ اسے آتش بازی کے فن میں بڑی مہارت تھی اور عید کی پہلی رات وہ آتش بازی کرتا تو اس کے فن کا مظاہرہ دیکھنے دور دور سے لوگ اکٹھے ہوتے۔ پنڈال بھر جاتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر امیر علی کی آتش بازی دیکھا کرتے۔
لاشعور میں بیٹھ گیا تھا کہ چاچے امیر علی کے گولی کی " ٹھاہ" ہونی ہے تو افطار کرنا ہے۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ چاچے گل محمد کے اعلان کے ساتھ ہی کسی نے افطار کیا ہو۔ ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ امیر علی کو گولا چلانے میں تاخیر ہو گئی۔ چاچا گل محمد اعلان پر اعلان کرتا رہا " امیر علی گولا چلا دے، اللہ دا ناں لے کے چلا دے گولا، امیر علی خیر ہووی، کتھے رہ گیاں گولا چلا دے۔ حالانکہ وقت ہو گیا تھا اور گولا نہ بھی چلتا تو ہمیں افطار کر لینا چاہیے تھا لیکن مجھے یاد ہے ہم سب کھجور ہاتھ میں پکڑے منتظر رہے کہ چاچا امیر علی گولا چلائے تو ہم افطار کریں۔ امیر علی کا گولا روایت سے جڑا ایک ایسا حکم نامہ تھا جب تک جاری نہ ہو جاتا افطار کرنا عجیب سا لگتا۔
نعت تو ہمارا چاچا گل محمد پڑھتا تھا۔ کاش وہ زندہ ہوتا اور میں اس کی نعت ریکارڈ کر کے آپ سب کو سنوا سکتا کہ دیکھیے نعت ایسے پڑھی جاتی ہے۔ ایسی محبت اور ایسے سوز سے پھر صرف قاری وحید ظفر قاسمی نے ہی نعت پڑھی۔ چاچا گل محمد نعت پڑھتا تھا اور سننے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔ ایک وقت آتا تھا نعت پڑھنے اور سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی۔ رمضان کا سارا مہینہ وہ نعت سناتا۔ اردو اور پنجابی کی نعتیں، کیا سوز اور کیا نستعلیق لہجہ تھا اس کا۔ ہمارے گھر کبھی رشتہ دار آئے ہوتے اور چاچا گل محمد نعت شروع کر دیتا تو ہ مبہوت ہو جاتے کہ بھلا ایسے بھی کوئی نعت پڑھ سکتا ہے۔
عید قدیم روایتی طریقے سے ادا ہوتی تھی۔ مغل شہزادے شاہ شجاع کی قبر بھی ہمارے گائوں میں ہے۔ روایت یہ ہے کہ جب وہ در دبر پھر رہا تھا تو اس گائوں نے اسے پناہ دی اور نقارے بجا کر اس کا استقبال کیا۔ یہ روایت آج بھی قائم ہے۔ رمضان کے آخری دس دن عصر کے بعد اہتمام سے نقارے بجائے جاتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھنے دور دور سے آتے ہیں۔ عید کی صبح یہ نقارے اونٹوں پر لاد دیے جاتے ہیں اور قافلے کی صورت لوگ نقارے بجاتے عید گاہ کی طرف جاتے ہیں۔ عید سے پہلے چاچا گل محمد بہت دیر تک نعتیں سناتا رہتا۔ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ دھریمہُ آکر عید پڑھتے تا کہ اس کی نعت سن سکیں۔
غریب آدمی تھا، اس کے وسائل محدود تھے۔ پنجابی کی ایک نعت پڑھتا تو اس کی ہچکی بند جاتی۔ آساں لگیاں مدینے نوں جاون دیاں، میری واری نہ آوے تاں میں کی کراں "۔ (امید بندھی ہے کہ مدینے جائوں لیکن میری باری ہی نہیں آتی میں کیا کروں)۔ یہی نعت کسی نے سنی تو اس نے کہا باقی سارے کام بعد میں پہلے چاچا گل محمد حج کرے گا۔ یوں ایک روز اس کی باری آگئی اور وہ مدینے چلا گیا۔ کون جانے روزہ رسول ﷺ پر جب اس نے نعت پڑھی ہو گی تو وہاں کا عالم کیا ہو گا۔
چاچا گل محمد بانگ ِ درا کی خضرِ راہ پڑھتا تو سماں بند جاتا۔" سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے، حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری"۔ مسجد سے اس کی آواز گونجتی تو گلیوں میں راہ گیر بے اختیار سبحان اللہ سبحان اللہ پکار اٹھتے۔ ادائیگی، ترنم، سوز، عقیدت، وارفتگی، ایک ایک چیز درجہ کمال کو چھو رہی ہوتی۔ چاچے گل محمد کے بعد اس جیسی نعت پھر قاری وحید ظفر قاسمی صاحب نے پڑھی ہے۔ خدا چاچا گل محمدکی قبرکو منور فرمائے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ افطار کے وقت اچانک ہاتھ رک جاتے ہیں کہ ابھی تو اعلان بھی نہیں ہوا کہ امیر علی اللہ دا ناں لے کے گولا چلا دے اور ابھی گولا چلا بھی نہیں تو پھر افطار کیسے ہو رہا ہے۔ سوچتا ہوں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی چینل پر افطار کا اعلان ہماری علاقائی اور تہذیبی روایات کے ساتھ کیا جا ئے؟