ایرانی جنرل قاسم سلمانی امریکی حملے میں جاں بحق ہو گئے، بہت افسوس ہوا لیکن دریچہ دل پر ایک سوال نے بھی دستک دی۔ سوال یہ ہے کہ قاسم سلمانی عراق میں کیا کر رہے تھے؟
امریکہ کی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے ورق ورق سے لہو ٹپک رہا ہے۔ معلوم انسانی تاریخ کے سارے فاتحین کے ہاتھوں تاراج بستیوں کے مقتولین ایک طرف رکھ دیں تب بھی مریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ امریکہ مغرب کے جمہوری نظام کے بارے اقبال کے اس شعر کی شرح ہے کہ " چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر"۔
آج کا سوال مگر اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم معاشروں کی تباہی میں صرف امریکہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے یا خود مسلمان ممالک نے بھی یہ آگ سلگا ئے رکھی ہے؟ امریکہ کے بارے میں کسی کو کسی قسم کا کوئی حسن ظن نہیں، اس کے بارے میں مسلم معاشروں میں پوری شدت اور قوت کے ساتھ ایک رائے موجود ہے۔ معاملہ اب اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں مسلم امہ میں مختلف درجوں میں مسیحا سمجھا جاتا ہے اور جو امت کی قیادت کے دعویدار ہیں ان کے بارے میں اس ستم رسیدہ امت کی نفسیاتی گرہ کھلنے کا کوئی امکان ہے یا نہیں؟
مسلم دنیا آج میدان جنگ بن چکی ہے اور مسلم معاشرے ایک ایک کر کے تاراج ہوتے جا رہے ہیں۔ المیے کی ہر کہانی کا ایک کردار امریکہ ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے موجود نہیں کہ امریکہ کے افسانے سے بوئے خون آتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ مسلمانوں کے لہو سے صرف امریکہ کا دامن تر ہے یا اس کھیل میں امت خود بھی شریک ہے؟
عراق ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ امریکہ نے یہاں ظلم و وحشت کا ایک کھیل برپا کیے رکھا۔ اس درندگی میں اس نے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انسانی حقوق اور انسانی جان کی حرمت کو اس نے بے رحمی سے کچلا۔ اس کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ امریکہ کے مشہور ٹی وہ شو ـ " 60 منٹ" میں میڈیلن البرائٹ سے جب سوال کیا گیا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پانچ لاکھ بچے عراق میں مر چکے ہیں۔ تو کیا ہمیں اتنی بھاری قیمت دینی چاہیے؟ تو ان کا جواب تھا:
جی ہاں، یہ ایک مناسب قیمت ہے، دینی چاہیے۔ خود امریکی دانشور نام چامسکی امریکہ کو " روگ سٹیٹ " کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سوال مگر یہ نہیں کہ امریکہ " روگ سٹیٹ " ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا میں کیا سب حاجی صاحب ہیں یا مسلمان معاشروں کی تباہی میں امریکہ کے ساتھ ساتھ کچھ برادر اسلامی ممالک بھی شامل ہیں؟
جب آپ اس سوال پر غور کرتے ہیں تو معاملے کا ایک وسیع تناظر سامنے آتا ہے۔ اس میں پھر صرف یہ سوال نہیں اٹھتا کہ کس طرح امریکہ نے انسانی قدروں اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بغداد ایر پورٹ پر قاسم سلمانی کو قتل کر دیا، بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ قاسم سلمانی عراق میں کیا کر رہے تھے؟
جب یہ سوال اٹھے گا تو پھر اس کا مخاطب صرف ایران نہیں رہے گا، مشرق وسطی کی سیاست کے تمام کردار اس سوال کے مخاطب ہوں گے۔ مسلم سماج اپنی بقاء چاہتا ہے تو اسے یہ سب سوال ایک ساتھ اٹھانے چاہییں؟
مشرق وسطی آتش فشاں کا دہانہ بن چکا ہے۔ لیکن چمن کی یہ تباہیاں بے وجہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کچھ باغباں بھی برق و شرر سے ملے ہوئے ہیں۔ ہمارے باہمی تنازعات تھمنے میں ہی نہیں آتے۔ ہم ایک دوسرے کا وجود برداشت نہیں کر پاتے۔ ایران سعودی عرب اور سعودی عرب ایران سے خفا ہے اور اس کشمکش نے مشرق وسطی کو دائمی میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ امریکہ کے لیے تو یہ دعوت طعام ہے۔ امریکی بربریت پر ضرور بات ہونی چاہیے لیکن یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ امریکہ کے لیے یہ دستر خوان بچھایا کس نے ہے؟
ایران سعودی عرب تنازعہ کیا کم تھا کہ اب ترکی بھی میدان میں ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت کی متواتر کوششوں میں ناکامی کے بعد اب وہ بھی امت کی قیادت کا دعویدار ہے۔ پہلے یہ کام سعودی عرب کرتا تھا اب ترکی بھی مسلم دنیا میں مساجد اور مدرسے تعمیر کروا رہا ہے۔ افریقہ کے جبوتی، گھانا، برکینو فاسو، مالی، چاڈ سمیت دنیا کے 25 ممالک میں ترکی مساجد اور مدرسے تعمیر کروا رہا ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ سعودی عرب ایران اور ترکی، ان تمام برادران اسلام کی توجہ کا بنیادی مرکز مساجد اور مدارس ہی کیوں ہیں؟ شاید اس لیے کہ مقصد مسلم معاشروں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ وہاں کے مذہبی طبقے میں اپنا اثرو رسوخ ہے تا کہ فکری پراکسی کے طور پر سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اس سرمایہ کاری کے نتائج دیکھنا ہوں تو پاکستان کو دیکھ لیجیے جہاں مذہبی طبقات پاکستان سے زیادہ اپنے اپنے سرپرست اور ہمدرد برادر اسلامی ملک کے لیے زیادہ پریشان پائے جاتے ہیں۔
مسلم معاشرے برادر اسلامی ممالک کی باہمی چپقلش کا میدان جنگ بن کر رہ گئے ہیں۔ مشرق وسطی میں آگ لگی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برادر اسلامی ممالک جنگ سے تباہ شدہ ان معاشروں میں مرہم اور خیر خواہی بانٹنے کی بجائے یہاں اپنے لیے امکانات تلاش کرتے پائے جاتے ہیں اور اس کے لیے سیاسی اور عسکری ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلح نجی لشکر تیار کیے جاتے ہیں اور معاشرے کو تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ دلچسپ اور بے رحم حقیقت یہ ہے کہ امت کی قیادت کے دعویدار برادران اسلام کے اپنے اپنے معاشروں میں امن اور سکون رہتا ہے۔ اعلائے کلمۃ الحق کی اس جنگ میں یہ اہتمام رکھا جاتا ہے کہ اپنے ملک میں امن رہے اور یہ جنگ دوسرے برادران اسلام کے ہاں لڑی جائے، یعنی تباہی وہاں ہو اور امت کی قیادت مال غنیمت میں ان برادران اسلام کو مل جائے۔ خیر خواہی نہیں، یہ اسی مال غنیمت کی ملکیت کی کشمکش کا اعجاز ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت پاکستان کے لیے ممکن نہیں رہتی۔
بین الاقوامی سیاست میں امت کا کہیں وجود نہیں۔ امت کی افادیت اب صرف اتنی ہے کچھ برادران اسلام اس کی رومانویت کی آڑ میں اپنی نیشن سٹیٹ کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔