ہمارے سو ٹڈ بوٹڈ اینکر پرسن اپنے ٹاک شوز انگریزی میں کیوں نہیں کرتے؟ یہ نہ طنز ہے نہ افتاد طبع کی شوخی، یہ انتہائی اہم سوال ہے۔
اکثر محترم اینکرز ٹوئٹر پر موجود ہیں۔ وہاں یہ انگریزی زبان میں ابلاغ فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ اپنے ٹاک شوز بھی اسی زبان میں کیوں نہیں کرتے؟ وجہ کیا ہے؟ اس ملک میں ایک انگریزی ٹی وی چینل آیا تھا، کچھ عرصے کے بعد اسے اردو چینل میں بدل دیا گیا۔ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں کرنا پڑا؟
ایک اور میڈیا ہائوس نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ایک انگریزی زبان کا چینل لا رہا ہے، ابتدائی کام بھی ہوگیا، افراد کا انتخاب بھی ہوگیا لیکن پھر وہ پراجیکٹ بند کر دیا گیا۔ سوال وہی ہے کہ کیوں؟
اس کا ایک ہی جواب ہے کہ انگریزی اس ملک کا Lingua Franka نہیں ہے۔ یہ یہاں نہ ذریعہ اظہار ہے نہ ذریعہ ابلاغ۔ یہ صرف احساس کمتری کا استعارہ ہے اور مقامی جنٹل مین، اس زبان میں ابلاغ کو تفاخرکی علامت سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ اتنے سیانے ضرور ہیں کہ اپنے پیشہ ورانہ مفادات پر ضرب نہیں آنے دینا چاہتے۔
چنانچہ جب بات ٹاک شو کی آئے گی تو وہ انگریزی میں نہیں بلکہ اردو میں ہوگا تا کہ لوگ دیکھیں اور ریٹنگ آ سکے۔ جب یو ٹیوب چینل پر خطبہ ہوگا تو وہ اردو زبان میں دیا جائے گا تا کہ دیکھنے والوں کی تعداد بڑھے اور اس کے ساتھ مالی امکانات بھی پیدا ہوں۔ لیکن عام بول چال میں ان کی تین کلو میٹر کی گفتگو میں پونے تین کلو میٹر (ناقص) انگریزی شامل ہوتی ہے۔
زبان کیا ہے؟ ذریعہ ابلاغ۔ پاکستان میں اگر کوئی زبان ہر جگہ سمجھی جا سکتی ہے اور اس میں بات کی جا سکتی ہے تو وہ اردو ہے۔ مقصد اگر بات سمجھانا ہی ہے اور اپنے موقف کا ابلاغ کرنا ہی ہے تو پھر انگریزی پر اصرار کیوں؟ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اہتمام غلام برصغیر میں پھیلائے گئے احساس کمتری کے سوا کچھ ہے تو کیا ہے؟
چند ماہ پہلے کی بات ہے، میں سٹوڈیو سے نکلا تو گاڑی میں محترمہ طاہرہ عبد اللہ میرے ساتھ تھیں۔ وہ ایک سیمینار میں بات کر رہی تھیں تو شرکاء نے ان سے درخواست کی کہ انگریزی میں بات کریں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور بات اردو میں جاری رکھی۔ میں نے ان کے اس رویے کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درست کام کیا۔ ہاں اگر وہاں کوئی انگریز بیٹھے ہوتے جنہیں اردو نہ آتی تو پھر معاملہ اور تھا اور اس صورت میں انگریزی میں بات کی جا سکتی تھی۔
طاہرہ عبد اللہ صاحبہ نے کہا نہیں آصف مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اس صورت میں بھی انگریزی میں بات نہیں کی جا سکتی تھی بلکہ اس صورت میں انگریز شرکاء کو مترجم ساتھ لے کر آنا چاہیے تھا۔ سفارت خانوں کے پاس بہت سے مالی وسائل ہوتے ہیں، انہیں مترجم کا بندوبست کر کے آنا چاہیے۔ ہم جب بیرون ملک جاتے ہیں تو کیا وہ ہمارے احترام میں اردو میں بات کرتے ہیں کہ ہم ان کے احترام میں ان کی زبان میں بات کریں؟
میں نے حیرت اور تحسین سے طاہر ہ عبد اللہ کی طرف دیکھا۔ بات تو ان کی درست تھی۔ میں گاڑی ڈرائیو کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہ بھی لاشعوری احساس کمتری کی علامت تھی کہ میں چند انگریزوں کی موجودگی میں اردو ترک کر کے انگریزی زبان میں بات کرنا مناسب سمجھ رہا تھا اور یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ سینکڑوں شرکاء پر چند شرکاء کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟
اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے میری کتاب پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نو آبادیاتی اثرات، پر ایک تقریب کا اہتمام کیا تو اس میں برادر مکرم حامد میر صاحب نے بہت اہم نکتہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ اردو میں فیصلے جاری کرنے کا حکم دے چکی ہے تو اب جو عدالت انگریزی میں فیصلے لکھتی ہے کیا وہ خود توہین عدالت کا ارتکاب نہیں کرتی؟ اس سوال میں بڑی معنویت ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل سب پر لازم ہوتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے لیکن ضلعی عدالتیں تک اس حکم پر عمل نہیں کر رہیں۔
اسی تقریب میں محترم سینیٹر مشتاق صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایوان میں ایک بل اردو میں پیش کیا۔ جب دفتری کارروائی کے بعد اسے ایوان میں پیش کیا گیا تو پہلے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا پھر اس انگریزی سے اردو ترجمہ کیا گیا اور وہ بھی اتنا غلط تھا کہ لفظوں کے معنی ہی بدل چکے تھے۔ سینیٹر صاحب کی اس بات سے یاد آیا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی پہلی رولنگ ہی یہی تھی کہ ہائوس کی زبان انگریزی ہوگی اور اردو صرف وہ بول سکے گا جسے انگریزی نہ آتی ہو اور اس صورت میں اردو بولنے سے پہلے اجازت لینا ہوگی ا ور اگر اجازت مل گئی تب اردو میں بات کی جا سکے گی۔
ابھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر محترمہ نسیمہ احسان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اردو میں تقریر کی تو مجھے شاہ محمود قریشی صاحب یادآگئے جب وزیر اعظم کے لیے اعتماد کے ووٹ سے پہلے انہوں نے ایوان میں انگریزی میں خطاب کیا۔ سمجھ سے باہر ہے یہ اراکین پارلیمان کسے انگریزیاں، سنا رہے ہوتے ہیں۔ اتنا ہی شوق ہے تو ذرا انتخابی جلسے بھی انگریزی میں کر کے دکھائیں۔ نہ اینکر پرسن انگریزی میں ٹاک شو کرتا ہے نہ سیاست دان انگریزی میں جلسہ عام کرتا ہے، تو یہ بیچ میں جب احساس کمتری انگریزیائی، جاتی ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟
احساس کمتری کی اس سے کریہہ شکل اور کیا ہوگی کہ اقوام متحدہ اردو میں اپنا بلیٹن جاری کر چکا ہے لیکن قومی اسمبلی کی کارروائی اور سینیٹ کی کارروائی کی تفاصیل آج بھی انگریزی میں ملتی ہیں۔ پاکستان کا ایوان ہے، قومی زبان اردو ہے لیکن تمام نوٹی فکیشن انگریزی زبان میں جاری ہوتے ہیں۔
معاملہ کسی زبان سے نفرت کا نہیں۔ انگریزی ایک زبان ہے اور اس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ معاملہ اس احساس کمتری سے نکل کر اپنی شناخت کی تلاش کا ہے جس سے ہمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتہ اور ملکہ وکٹوریہ کے وفادار مقامی جنٹل مینوں نے محروم کر رکھا ہے۔ ہمارے احساس کمتری نے یہ تصور کر لیا ہے کہ زبان اب ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ اس ملک میں طبقاتی تقسیم کی آلہ کار ہے۔
یہ واردات صرف غلامی مشترکہ، معاف کیجیے، دولت مشترکہ، کا اجتماعی ورثہ ہے کہ عزت اور فضلیت صرف انگریزی زبان میں ہے اور اگر آپ کو اس زبان میں بات کرنا نہیں آتی تو آپ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اس ملک کو اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنی روایات کی ضرورت ہے۔ تبدیلی کا یہ واحد راستہ ہے۔ ہر وہ طبقہ جو اس کی نفی کرتا ہے یا غاصب ہے یا احساس کمتری کا مارا مقامی جنٹل مین۔