گرمی کی تازہ لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کے کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجیے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔
ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔ مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اورو ساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ یہ جیٹھ ہاڑ کا درجہ حرارت ہے جو چیت اور وساکھ میں آگیا ہے۔ موسموں کی یہ تبدیلی بہت خطرناک ہے لیکن یہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ اس معاشرے اور اس کے اہل فکرو دانش کو سیاست لاحق ہو چکی اور ان کے لیے سیاست کے علاووہ کسی موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں رہا۔
مارگلہ میں موسم گرما اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک مالا ہے جس کے ہر موتی کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ ہر موسم دوسرے سے الگ اور جداہے۔ اسُو یہاں جاڑے کا سندیسہ لے کر اترتا ہے اور چیت اُنہالے کا۔ چیت کے آخری ایام بتاتے ہیں کہ موسم گرما آنے کو ہے۔ وساکھ یہاں موسم گرما کی پہلی دستک کا نام ہے۔ درختوں کی چھائوں میٹھی ہوتی ہے مگر دھوپ میں ذرا سی حدت۔ پھر جیٹھ ہاڑ کی شدید گرمی اور آخرمیں ساون بھادوں کی بارشیں اترتی ہیں جب جنگل پہلی محبت کی طرح حسین ہو جاتا ہے۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ تابستانی رنگ اپنی شناخت کھو دیں۔ اس بار مگر وساکھ میں ہی جیٹھ کی حدت آ گئی ہے۔ ندی کنارے بیٹھا ہوں، سامنے چشمہ بہہ رہا ہے اور چشمے کے کنارے پر ایک کوئل نڈھال بیٹھی ہے۔ زبان باہر کو نکلی ہوئی ہے اور حدت سے اس کے کندھے اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں۔ وقفے وقفے سے وہ چشمے میں اترتی ہے، ڈبکی سی لگاتی ہے اور پھر کنارے پر بیٹھ کر پروں کو پھڑ پھڑانے لگتی ہے۔ چیت اور وساکھ کی ان دوپہرں میں تو کوئل نغمے سنایا کرتی تھی، آج مگر بدلتے موسم نے اسے گھائل کر چھوڑا۔
موسموں کی اس تبدیلی سے صرف مارگلہ متاثر نہیں ہو گا، پورے ملک پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مارگلہ میں تو درجنوں چشمے ہیں اور ندیاں، کچھ رواں رہتی ہیں کچھ موسموں کے ساتھ سوکھتی اور بہتی ہیں، لیکن جنگل کے پرندوں اور جانوروں کے لیے یہ کافی ہیں۔ سوال تو انسان کا ہے، انسان کا کیا بنے گا۔ افسوس کہ انسان کے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں۔ مریض کو جیسے کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے، ایسے اس معاشرے کو سیاست لاحق ہو گئی ہے۔ یہی ہماری تفریح ہے اور یہی ہمارا موضوع بحث۔ اس کے سوا ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔
ابلاغ کی دنیا ان کے ہاتھ میں ہے جو سنجیدہ اور حقیقی موضوعات کا نہ ذوق رکھتے ہیں نہ اس پر گفتگو کی قدرت۔ نیم خواندگی کا آزار سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سر شام ٹی وی سکرینوں پر جو قومی بیانیہ ترتیب پاتا ہے اس کی سطحیت اور غیر سنجیدگی سے خوف آنے لگا ہے۔ نوبت یہ ہے کہ دنیا چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن ہمارا دانشور صبح سے شام تک یہی گنتی کر رہا ہوتا ہے کہ کس قائد انقلاب کے جلسے میں کتنے لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ موضوعات کا افلاس آسیب بن چکا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ماحولیات کی تباہی سے یکسر بے نیاز۔ گلی کوچوں سے پارلیمان تک یہ سوال کہیں زیر بحث ہی نہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟ زیر زمین پانی کی سطح جس تیزی سے گر رہی ہے، خوفناک ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں 70 یا 80 فٹ پر پانی مل جاتا تھا لیکن اب تین سے چار سو فٹ گہرے بور کرائیں تو بمشکل اتنا پانی دستیاب ہے کہ پانچ سے دس منٹ موٹر چل سکتی ہے۔ موسم کی حدت کا عالم یہی رہا تو پانچ دس سال بعد زیر زمین پانی چھ سات سو فٹ گہرائی میں بھی مل جائے تو غنیمت ہو گی۔
اسلام آباد دارالحکومت ہے لیکن پانی کا بحران اسے لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک ٹینکر اب دو ہزار کا ملتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹینکر بھی تو کنووں سے پانی بھر لاتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح یونہی نیچے جاتی رہی تو ٹینکرز کہاں سے پانی لائیں گے؟ ایک آدھ سیکٹر کو چھوڑ کر سارا شہر اس مصیبت سے دوچار ہے لیکن اپناکمال دیکھیے کہ شہر میں کسی محفل کا یہ موضوع نہیں ہے۔ نہ اہل سیاست کا، نہ اہل مذہب کا نہ اہل صحافت کا۔ سب مزے میں ہیں۔
یہ بحران صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ بس یہ ہے کہ کسی کی باری آج آ رہی ہے کسی کی کل آئے گی۔ جب فصلوں کے لیے پانی نہیں ہو گا اور فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے پھر پتا چلے گا کہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
جنگل کٹ رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے (یعنی کراچی کے سر پر خطرہ منڈلا رہا ہے)، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سیلابوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ابھی گلگت بلتستان میں گلیشیر کے پگھلنے سے حسن آباد پل تباہ ہوا ہے۔ کئی گھر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ خود اس پل کی تزویراتی اہمیت تھی کہ یہ چین اور پاکستان کو ملا رہا تھا۔ پل کی تزویراتی اہمیت کی نسبت سے یہ حادثہ ہمارے ہاں زیر بحث آ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ماحولیاتی چیلنج کی سنگینی کو ہم آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، پریس ٹاک، جلسہ عام۔۔ کہیں اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہو تو بتائیے۔
مارگلہ کی ندیاں بھی اجنبی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی چندسال پہلے درہ جنگلاں کی ندی ساون بھادوں میں یوں رواں ہوئی کہ چار ماہ جوبن سے بہتی رہی۔ اب دو سال سے خشک پڑی ہے۔ ساون اس طرح برسا ہی نہیں کہ ندی رواں ہوتی۔ رملی کی ندی بہہ تو رہی ہے مگر برائے نام۔ جب پوش سیکٹروں کا سیوریج ان ندیوں میں ملا دیا جائے گا تو ندیاں شاید ایسے ہی ناراض ہو جاتی ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے نظام فطرت ہی ہم سے خفا ہو گیا ہے۔ موسم ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔
ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ماحولیات سے جڑے چیلنجز کی سنجیدگی کو سمجھا نہ گیا تو بہت بڑا اور خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دینے والا ہے۔