کیا اقوام متحدہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی اور دنیا کو اب کسی نئے نظام اجتماعی کی ضرورت ہے؟
اقوام متحدہ کی افادیت کمزوروں اور بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے سوالیہ نشان ہی رہی ہے۔ کہنے کو تو اقوام متحدہ کے پاس اپنے چارٹر اور اپنی قراردادوں کے اقوال زریں کے انبار لگے ہیں لیکن عملی طور پر یہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کا وہ کلب ہے جہاں معاملات کسی اصول، قانون اور ضابطے کی بجائے ان فاتحین کی خواہشات کے تحت طے ہوتے ہیں۔ ساری دنیا ایک طرف ہو جائے لیکن ویٹو پاور رکھنے والا کوئی ایک ملک دوسری طرف کھڑا ہو جائے تو ساری دنیا کی خواہش کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور ویٹو پاور والا اکیلا ہی میدان مار لیتا ہے۔ ان پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں سے " حسن اتفاق" اور اہتمام یہ ہے کہ ایک بھی ملک مسلمان نہیں ہے۔
تضادات دیکھیے، ایسٹ تیمور کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ بھاگی چلی آتی ہے اور کشمیر اور فلسطین کا معاملہ ہو تو اقوام متحدہ بے نیازی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتی ہے جیسے یہ زندہ انسانوں کا مسئلہ نہ ہو بلکہ چند حشرات الارض ہوں جو کچلے جا رہے ہوں۔
اس سارے اہتمام کے باوجود معلوم یہ ہو رہا ہے کہ بالا دست قوتوں کا اقوام متحدہ سے جی بھر گیا ہے۔ اس دنیا کے ساتھ یہ قوتیں جو کچھ مزید کرنا چاہتی ہیں اس میں اقوام متحدہ اب ان کی کچھ زیادہ بڑی ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے ساتھ اب ایک ایسی عسکری قوت میدان عمل میں ہے جسے نیٹو کہتے ہیں اور جو کہیں بھی بروئے کار آنے کے لیے اقوام متحدہ کی محتاج نہیں۔
اسی طرح وہ زمانے بھی گزر گئے جب اقوام متحدہ کسی ملک پر پابندیاں عائد کیا کرتی تھی۔ اب یہ کام بھی ایف اے ٹی ایف جیسے فورمز کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور کرنے والوں کو نہ اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت ہے نہ اس کے ضابطوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کی حاجت۔ بھاڑ میں گئی اقوام متحدہ اور اس کے قوانین، یہ ممالک جب اور جہاں اور جیسے چاہتے ہیں عسکری ا ور معاشی طور پر خود ہی اقوام متحدہ کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں اب اتنی بھی جرأت نہیں کہ افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی بات ہی کر سکے۔ اسرائیل خفا ہوتا تھا تو اقوام متحدہ والوں پر گولیاں چلا دیتا تھا اور امریکہ خفا ہوتا ہے تو اقوام متحدہ کے فنڈز بن کرنے کی دھمکی دے دیتا ہے۔ زبان حال اور زبان قال سے یہ ممالک اب اقوام متحدہ کے کان میں سرگوشی کر رہے ہیں کہ تجھے ہم نے اپنی کنیز کے طور پر رکھا تھا ملکہ بننے کی ضرورت نہیں۔ کوئی وقت آتا ہے کہ سرگوشی میں کی جانے والی بات علی الاعلان کہہ دی جائے۔
ابھی پاکستان کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہمارے سر لٹکی ہے اور ہم اس کو نیک چلنی کی یقین دہانی کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن وہ مان ہی نہیں رہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ہیں کون اور ان کا مینڈیٹ کیا ہے؟ اسی سوال کو جید ماہر قانون جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے موضوع بنایا ہے اور حسب روایت اس کا حق ادا کر دیا ہے لکھتے ہیں : "پہلے تو یہ دیکھ لیجیے کہ ایف اے ٹی ایف ہے کیا؟
یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس 1987ء میں گروپ آف سیون نامی بین الاقوامی تنظیم نے بنائی۔ گروپ آف سیون میں برطانیہ، امریکا اور فرانس کے علاوہ جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور جاپان کے ممالک شامل ہیں لیکن جب اس گروپ کا سربراہی اجلاس ہوتا ہے تو اس میں یورپی یونین کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ اس ٹاسک فورس نے پچھلے کچھ عرصے سے نام نہاد بلیک لسٹ اور گرے لسٹ بنا کر دنیا کے کئی ممالک کو اپنے قوانین اور اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے اور بنیادی طور پر یہ کام دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سات ممالک کو یہ اختیار کیسے حاصل ہوا کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک پر اپنے فیصلے مسلط کریں "؟
اقوام متحدہ کی طبعی عمر تمام ہونے کے معاملے کو بھی ڈاکٹر صاحب نے موضوع بنایا ہے۔ یہاں سے ہم اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی طرف جاتے ہیں۔ یہ تنظیم 1945ء میں دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کیلیے وجود میں لائی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کو ایک عالمی تنظیم کی حیثیت حاصل ہوگئی کیونکہ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک نے اس کی رکنیت اختیار کی۔ اس تنظیم کے منشور کی رو سے عالمی امن کی حفاظت اور (اگر اسے نقصان پہنچے تو) اس کی بحالی کا اختیار اس کی "سلامتی کونسل" کو دیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان ہوتے ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی "نہ" کہہ دے تو سلامتی کونسل اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔ اس اختیار کو ویٹو کا اختیار کہتے ہیں۔
یہ پانچ ممالک وہ ہیں جن کو دوسری جنگِ عظیم میں فاتح کی حیثیت حاصل تھی، یعنی امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ روس سے اس وقت مراد سوویت یونین تھا جبکہ چین سے مراد چیانگ کائی شیک کی قومی ریاست تھی۔ 1949ء میں چین میں سرخ انقلاب آیا لیکن امریکا نے کمیونسٹ چین کو اقوامِ متحدہ کی تنظیم اور سلامتی کونسل کا رکن بننے نہیں دیا تا آنکہ 1960ء کی دہائی میں کمیونسٹ چین بھی ایٹمی طاقت بن گیا اور مزید یہ کہ کمیونسٹ بلاک میں سوویت یونین کے ساتھ اس کی سرد جنگ میں بھی شدت آگئی، تو 1970ء میں بالآخر کمیونسٹ چین اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا رکن بن کر ویٹو کا اختیار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1991ء میں سوویت یونین بکھر گیا تو اس کی جگہ روس کو ہی ملی۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کئی ممالک آزاد ہوگئے اور انھوں نے مغربی طاقتوں کیلیے مسائل پیدا کرلیے۔ چنانچہ 1990ء کی دہائی تک جاتے جاتے نئے عالمی نظام کے منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ گروپ آف سیون کے تحت ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تنظیم کو چونکہ عالمی حیثیت حاصل ہے، اس لیے جب اس کے منشور کے تحت سلامتی کونسل کوئی فیصلہ کرے تو اسے بین الاقوامی قانون کی رو سے جواز حاصل ہوتا ہے، خواہ وہ فیصلہ کتنا ہی غلط ہو۔
تاہم ایف اے ٹی ایف کے پاس تو ایسا قانونی جواز بھی موجود نہیں ہے۔ پھر اس کے فیصلوں کے نفاذ کے پیچھے قوت کیا ہے؟ اس لحاظ سے بھی غور کیجیے کہ ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کرنے والے گروپ آف سیون میں تین ممالک (امریکا، برطانیہ اور فرانس) تو پہلے ہی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور انھیں وہاں ویٹو کا اختیار بھی حاصل ہے۔ پھر انھیں اقوامِ متحدہ سے بالا بالا ایک اور ادارہ کھڑا کرنے اور فیصلہ سازی کا ایک اور فورم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی"؟
ڈاکٹر مشتاق صاحب کا میں مداح ہوں کیونکہ وہ جس موضوع پر بات کرتے ہیں کمال گرفت کے ساتھ کرتے ہیں۔ سوال مگر اب یہ بھی ہے کہ کیا کبھی ایسی بحث ہمیں پارلیمان میں بھی سننے کو ملے گی؟