جنگل کی طرف بڑھا تو پہلی ندی کے کنارے پر وائلڈ لائف کے دو اہلکار بیٹھے تھے۔ سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک کہنے لگا: آصف صاحب حکومت کس کو آرمی چیف بنا رہی ہے؟ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے بندے مجھے چھوٹے چھوٹے سے دنیاوی امور کا کچھ نہیں پتا ہوتا اور تو مجھ سے ایسے روحانی معاملات کی خبر سننا چاہ رہا ہے جہاں میرے جیسا بندہ راستہ ہی بھول جائے۔ اس سے بہتر ہے تم مجھے تم مجھے یہ بتائو کہ جنگل میں تیندووں کی تشریف آوری کی تازی ترین خبر کیا ہے۔
ندی عبور کی، آگے ٹریل تھری کو جاتی پگڈنڈی پر چاچا رشید ملا۔ تیندوے اور چاچے رشید میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان کی ملاقات کا کوئی وقت معین نہیں۔ یہ کسی بھی وقت جنگل میں تشریف لا سکتے ہیں اور نہ آئیں تو مہینوں نہ آئیں۔ یہ اوپر گوکینہ سے آتا ہے اور اس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ جنگل کی ٹپ، اسے دی جائے۔ یہ اتنا سیانا ہے کہ لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ بھلا آپ اپنا بٹوا گاڑی میں چھوڑ آئیں لیکن ٹپ، تو جیب میں ڈال کرساتھ لے کر جنگل میں لا ہی سکتے ہیں۔ بٹوہ تو میرے پاس نہیں تھا لیکن چاچے رشید کو آج ٹپ نہیں چاہیے تھی۔ اس نے چادر کو میرے بیٹھنے کے لیے پھیلایا اور خود ایک کونے میں سمٹتے ہوئے کہنے لگا: وڈا چیف کنوں بنائی گشنے او؟ (بڑا چیف کسے بنا رہے ہو)۔
میں چند لمحے تو اسے حیرت سے دیکھتا رہا کہ شاید سالوں سے جنگل سے نیچے شہر میں نہ آیا ہو اور اوپر گائوں سے درہ جنگلاں کی پگڈنڈیاں گھوم پھر کرو اپس چلا جاتا ہو لیکن اسے بھی پریشانی اور تجسس ہے کہ آرمی چیف کون بن رہا تھا۔
واپسی پر ایف سکس میں گاڑی کا آئل چینج کرانا تھا اور سروس کرانا تھی۔ سارا کام ہو چکا تو شفٹ انچارج نے بقایا رقم میرے حوالے کرتے ہوئے بڑے رازدارانہ انداز سے سوال کیا: آصف صاحب نیا چیف کون آ رہا ہے؟
رات گئے بالوں سے الجھن سی محسوس ہوئی اور میں انہیں ترشوانے نکل آیا۔ حجام نے پیکنگ مکمل کی اور قینچی اٹھائی تو ساتھ ہی یہ سوال بھی پوچھ لیا کہ آپ کو تو پتا ہوگا نیا چیف کون آ رہا ہے؟ اس کم بخت کے ہاتھ میں قینچی بھی تھی اور استرا بھی ساتھ ہی رکھا تھا، اسے ٹرخانا ممکن نہ تھا چنانچہ عافیت اسی میں محسوس کی کہ اس کے ساتھ اس اہم قومی مسئلہ پر تبادلہ خیال کر لیا جائے۔ میں نے اس سے جوابی سوال کر لیا کہ تمہارے خیال میں اس منصب کے لیے کون موزوں ہوگا۔ آپ یقین جانیے اس کے پاس اتنی معلومات تھیں کہ وہ اپنا کوئی یوٹیوب چینل بنانے یا کسی ٹاک شو میں سینیئر تجزیہ کار کے طور پر قوم کی رہنمائی فرمانے کی اہلیت پر پورا اترتا تھا۔
صبح باہر نکلا توگلی کی نکر پر خاکروب جھاڑودے رہا تھا۔ کچھ ہفتے پہلے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ میں نے اس کی خیر خبر پوچھی تو کہنے لگا: صاحب جی یہ چیف کا فیصلہ کب تک ہو جائے گا؟
یہ ایک دن کے معمولات ہیں جو کسی مبالغے کے بغیر میں نے آپ تک پہنچا دیے۔ اگر ان مشاہدات کا دائرہ کار تین چار روز تک پھیلا دیا جائے توپھر جو منظرنامہ بنے گا اس کے مطابق ہر ملنے والے کی زبان پر ایک ہی سوال ہے: آرمی چیف کون بنے گا اور کب بنے گا؟
دوست احباب بھی فون کرتے ہیں تو سیاست پر ہی رہنمائی فرمانا یا فرموانا، چاہتے ہیں تواتنی وحشت ہوتی ہے کہ دل کرتا ہے آدمی جنگل کی طرف بھاگ جائے اور تیندووں سے درخواست کرے کہ سیاسی پناہ دے دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس معاشرے کے پاس گفتگو کرنے کے لیے اپنا کوئی موضوع نہیں؟ کیا صرف سیاست اور ایک عدد تعیناتی ہی وطن عزیز کا واحد مسئلہ ہے؟ فرض کریں سنیارٹی میں پہلے نمبر والا افسر آرمی چیف بن جائے یا فرض کریں کہ آخری نمبر والا بن جائے، عام آدمی کو کیا فرق پڑے گا؟
فرض کریں دوسرے نمبر والا بن جاتا ہے، کیا فرق پڑے گا؟ یہ سیاسی اشرافیہ کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ عام آدمی یہ معاشرہ پرائی بارات کا عبد اللہ دیوانہ کیوں بنا ہوا ہے؟ سب افسر اس منصب کے اہل ہیں اور تعیناتی کااختیار وزیر اعظم کا ہے۔ مزید یہ کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا۔ بھٹو بھی یہ دیکھ چکے اور نواز شریف بھی۔ لیکن پھر بھی اہل سیاست تو جمع تقسیم کریں سو کریں، ایک عام آدمی کا اس سے کیا لینا دینا کہ چیف کون بن رہا ہے؟
معلومات کا طوفان ہے مگر بے ہنگم اور بے مقصد۔ خبر کی تلاش میں ہر کوئی مارا، مارا پھر رہا ہے نظر کسی کی ترجیح نہیں۔ ایسی خوفناک قسم کی بے مقصدیت نے اس معاشرے کو گرفت میں لے رکھا ہے کہ خوف آتا ہے۔ بس ہمیں خبر ہونی چاہیے، بھلے مقصد کچھ نہ ہو۔
بجٹ کے دنوں میں یہی ہوتا ہے۔ دو بجے یا شام پانچ بجے بجٹ پیش ہونا ہوتا ہے اور دوست احباب پاگلوں کی طرح فون کر رہے ہوتے ہیں کہ بھائی نہیں، پلیز کہیں سے بجٹ ڈاکومنٹ ہی لے کر بھجوا دے۔ میں اس مریضانہ جنون کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ تین چار گھنٹے بعد ویسے ہی بجٹ پیش ہو جانا ہے توانہیں ایسی کیا بے تابی ہے؟
کوئی سماجیات اور نفسیات کا ماہر ہی ان رویوں کا جائزہ لے سکتا ہے لیکن یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ ہمارے لوگ اپنے حقیقی مسائل پر بات کرنے کی بجائے نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ آرمی چیف کون بنتا ہے اور کون سے نمبر والا بنتا ہے اس سے عام آدمی کا کیا لینا دینا؟
عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے سردیوں میں گیس ملتی ہے یا نہیں؟ اس کے بچوں کی تعلیم کاکوئی معقول بندوبست ہے یا نہیں؟ گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو ساری جمع پونجی برباد کر کے بھی اچھے علاج کی کوئی ضمانت ہے کہ نہیں؟ کہیں کوئی ظلم ہو جائے تو انصاف لینے کے لیے کتنی نسلوں کو انتظار کی سولی پر لٹکنا ہوگا اور اس کے بعد بھی جو ملے گا وہ انصاف ہوگا یا صرف فیصلہ؟ معیشت کب بہتر ہوگی؟ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ لیکن مجال ہے کوئی اپنے حقیقی مسائل پر بات کرے یا ان کے لیے پریشان ہوتاہو۔
نان ایشوز پر بحثیں کرنی ہیں، نان ایشوز پر لڑنا مرنا اور جھگڑنا ہے، اپنے خاندان کا چاہے کوئی مستقبل نہ ہو لیکن اپنے اپنے حصے کے شاہی خاندانوں کی مجاوری کرتے رہنا ہے۔ اس مجاوری میں برسوں کے تعلقات برباد کر دینے ہیں۔ کوئی بلاول کے مستقبل کے لیے پریشان ہے کوئی مریم اور عمران کے مستقبل کے لیے۔
میں نے بہت سوچا کہ ایسا کیوں ہے لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ سکا۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ جن محروم لوگوں کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے ہر پہر کنواں کھودنا پڑتا ہے وہ ان آسودہ لوگوں کے لیے کیوں پریشان رہتے ہیں جن کے صحن سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ کیا آپ میری رہنمائی فرما سکتے ہیں؟