لوگ سوال کر رہے ہیں، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی اسمبلیاں کب تحلیل کی جائیں گی اور میں بیٹھا سوچ رہاہوں تحریک انصاف کب قومی اسمبلی میں واپس جائے گی اور کب اس ایوان کی تکمیل، ہوگی؟
سیاست اس ملک میں اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کبھی بھی نہیں کر سکی لیکن یہ متاع جس بے رحمی سے تحریک انصاف نے گنوائی ہے اس کاعنوان المیے کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ کس قدر غیر معمولی مقبولیت سے خدا نے اس جماعت کو نوازا لیکن اس کی قیادت نے بڑی محنت سے صرف تین چار سالوں میں ہی ثابت کر دیا کہ افتاد طبع کے اعتبار سے وہ اناطولیہ کے کوہ آعری کے اس چرواہے سے نسبت رکھتی ہے جو ہر جاڑے کی ڈھلتی چاند کی راتوں میں شور مچا دیتا تھا: شیر آیا شیر آیا۔ لوگ لاٹھیاں، نیزے اور تلواریں لے کر اس کی مدد کو نکل پڑتے تو وہ مسکرا دیتا کہ اس نے تو صرف سیاسی بیان جاری کیا تھا۔ ایک اندھیری یخ بستہ رات میں سچ مچ کا شیر آ گیا۔ کوہ آعری کی وادی میں چرواہے کی چیخیں گونجتی رہیں : شیر آیا آیا، لیکن کوئی اس کی مدد سے لحافوں سے نہ نکلا۔
تحریک انصاف ایک رومان تھا، افسوس اب برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں رکھا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی کوہ آعری کے چرواہے کی طرح ہر دوسرے موسم میں آواز لگاتی ہے اور جب اس کے وابستگان اس کی کال پر باہر نکلتے ہیں تو ایک نئی کہانی سنا کر گھر کو لوٹ جاتی ہے۔
لانگ مارچ یعنی حقیقی آزادی مارچ میں، جب واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا تو یہ وقت تھا جب ہیجان اور احتجاج کی بجائے تعمیری اور پارلیمانی سیاست کی طرف لوٹا جاتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ تحریک انصاف آج بھی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ لیکن اس نے پھر وہی پوسٹ ٹروتھ کے تاج محل دکھا کر کارکنان کو بہلایا کہ بس اب ہم اسمبلیاں تحلیل کرنے لگے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ تھا جو سیاست سے نفسیات تک کسی بھی پیمانے پر پورا نہیں اترتا تھا۔
سیاست اپنے امکانات بڑھانے کا نام ہوتا ہے، دستیاب مناصب سے استعفے دے کر ان کا گلا گھونٹنے کا نام نہیں ہوتا۔ کارکنان مگر آنکھوں میں یہ خواب سجا کر گھروں کو لوٹے کہ بس یہ اسمبلیاں تو اب دو دنوں کی مہمان ہیں۔ پوسٹ ٹروتھ کے گھائل احباب نے تجزیوں سے رائی کا پہاڑ بنا دیا کہ جب اسمبلیاں تحلیل ہوں گی تو کیا ہوگا۔ لیکن جو لوگ عمران خان صاحب کی سیاست کو جان چکے انہوں نے اسی وقت کہہ دیا کہ یہ بیان فیس سیونگ کے سوا کچھ نہیں۔
پوسٹ ٹروتھ کے قتیل کا یہی المیہ ہوتا ہے۔ وہ کسی موقف کسی بات کو دلیل کی بنیاد پر نہیں پرکھ سکتا۔ وہ پوسٹ ٹروتھ کی بنیاد پر دلیل کو پرکھتا ہے۔ دعوے کو حاجت نہیں وہ دلیل پر پورا اترے، دلیل کے لیے لازم ہے وہ دعوے کی آرتی اتارے۔ چنانچہ سر شام طوفان اٹھ کھڑا ہوگیا: اب کیاہوگیا۔ نوشہ دیوار مگر یہی تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔
چنانچہ اسمبلیوں سے استعفے اب ایسا ہی عمل ہے جیسے کسی محبوب کا ملاقات کا وعدہ۔ آج، نہیں کل، نہیں ویک اینڈ پر، ارے نہیں اگلے ہفتے، نہیں نہیں اس جاڑے کے بعد، ارے اب اگلی بہار میں، جب پھول کھلیں گے۔ گلزار والی بات کہ:
عادتاََ تم نے کر لیے وعدے
عادتاََ ہم نے اعتبار کیا
لیکن کوئی کب تک اعتبار کرے۔ ایک وقت آتا ہے آدمی ناصر کاظمی کی طرح پھٹ پڑتا ہے کہ:
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
مجبوریاں بہت ہوں گی مگر لوگ دبے دبے لفظوں میں پوچھ رہے ہیں کہ تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر۔ استعفے لینے نکلے تھے اور جانا اسلام آباد تھا۔ مگر ہوا کیا؟ راولپنڈی ہی سے لوٹ گئے اور اپنے استعفے دینے کا وعدہ کر کے۔ سیاسی جماعتوں میں جب مشاورت نہ رہے اور مزاج یار ہی فیصلہ کن ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اعلان کے بعد جب مشاورت ہوئی ہوگی تو لوگوں نے کہا ہوگا یہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اب باقی کہانیاں ہیں اور تاویلات۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی نے بندوق وزیر اعلی پنجاب کے کندھے پر رکھ دی کہ پہلے وہ اسمبلی تحلیل کریں پھر میں کر دوں گا۔ اور پنجاب والوں نے جواب آں غزل کہہ دیا کہ مارچ تک تو اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ کچھ لوگ نثر کے ہوتے ہیں انہیں نظم یا غزل سمجھ نہیں آتی تو اس جواب آں غزل کی شرح کے لیے پنجاب کابینہ میں توسیع بھی کر لی گئی ہے تا کہ سند رہے اور غزل شناسی میں کام آئے۔ ساتھ ہی کچھ آزاد نظمیں بھی کہہ دیں کہ ہم نے کیسے عمران کا ساتھ دیا تا کہ شاعری میں کسی کا ہاتھ بہت ہی تنگ ہو تو وہ کھیل ہی کھیل میں سمجھ لے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔
سیاسی جمع تقسیم میں، اپنی حکومتوں ہی کو ختم کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دینا سرے سے کوئی آپشن ہی نہ تھا۔ یہ افتاد طبع تھی یا فیس سیونگ، کچھ بھی ہو اسے سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ سیاست دستیاب امکانات کو وسعت دینے کا نام ہے اپنے ہاتھ کاٹنے کا نام نہیں۔ پرویزالہی معاملہ فہم سیاست دان ہیں وہ کسی سے مل کر سیاسی معاملہ تو کر سکتے ہیں کسی کے لیے اقتدار کیوں قربان کریں گے۔ وہ بھی اس مرحلے پر جب اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے باجود قبل از وقت انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔
کسی کا خیال تھا کہ استعفوں سے کوئی بڑا بحران آ جائے گاتو یہ خام خیالی تھی۔ بحران استعفوں سے نہیں آتے۔ بحران آنے ہوں تو استعفے شستعفے، لائے جاتے ہیں۔ اس وقت ملکی معاشی صورت حال کسی بحران، کسی ایڈونچر، کسی نجاے دہندے، کسی ہیرو، کسی احتجاج کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ معیشت کو سیاسی استحکام چاہیے۔ اس ووقت سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا معیشت کے مقابل کرا ہونے کے برابر ہے۔ تحریک انصاف کو یہ بات بہت پہلے سمجھ جانا چاہیے تھی جب ہم جیسے طالب علم عرض کر رہے تھے کہ یہ ووقت احتجاجی سیاست کا نہیں ہے۔
ایک مقبول سیاسی جماعت کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوا۔ الا یہ کہ وہ خود اپنی متاع لٹانے پر تل جائے۔ عمران خان کو آج بھی سب سے بڑا خطرہ سیاسی حریفوں سے نہیں خود سے ہے۔ اپنی افتاد طبع سے ہے۔ چوبیس گھنٹے کی محاذ آرائی سے گھر والے بھی اکتا جاتے ہیں سیاست تو پھر مختلف چیز ہے۔
عمران خان کو اب واپس پارلیمان میں جانا چاہیے اور پارلیمانی سیاست پارلیمانی انداز سے کرنی چاہیے۔ کسی سہانی صبح اگر ہم تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو ایوان میں واپس جاتا دیکھیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے زیادہ اہم سوال گویا اب یہ ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس کب جا رہی ہے؟ ہو سکتا ہے میری رائے غلط ہی ثابت ہو، لیکن میرا گمان یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسمبلیوں کی تحلیل نہیں ہوگی، ان کی تکمیل ہوگی اور تحریک انصاف قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوگی۔