اٹھارویں ترمیم ایک معاشی واردات تھی اور نواز شریف اس میں شریک جرم تھے۔ نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
زرداری صاحب ایک گرگ باراں دیدہ ہیں، بے نظیر بھٹوکی مظلومانہ موت کے رد عمل میں وہ اقتدار تک تو پہنچ گئے لیکن انہیں خوب معلوم تھا یہ اقتدار ان کی صلاحیتوں کے طفیل نہیں ملا، بے نظیر کے خون کے صدقے میں ملا ہے اور بہت جلد ان کا اثر و رسوخ محض سندھ تک محدود ہو جائے گا۔ چنانچہ ان کے پیش نظر مستقبل قریب میں اپنے سمٹتے سیاسی کردار کے تناظر میں، ایک صوبے کی حد تک اپنے معاشی اور انتظامی اختیارات کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
نواز شریف صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں، ان کے نزدیک ہر معاملہ کاروبار ہوتا ہے جس کی افادیت کا تعین اس سے ملنے والا منافع کرتا ہے۔ ان کی جانے بلا کہ اٹھارویں ترمیم کیا کہتی ہے، وہ اسی پر شاد کام تھے کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر جو پابندی ہے اس کا خاتمہ ہو رہا ہے اور آگے چل کر وہ ایک بار پھر وزیر اعظم بن سکیں گے۔ پرویز مشرف کے غیر مقبول اقتدار کی یادیں لوگوں کے ذہن میں تازہ تھیں اور رد عمل میں جمہوری رہنمائوں کی زلف کی تیرگی کو حسن لکھا جا رہا تھا۔ چنانچہ اس ترمیم کی چند دیگر خوبیاں تو بہت زیر بحث آئیں، اس کی معاشی واردات اپنی پوری معنویت کے ساتھ کبھی زیر بحث نہ آ سکی۔
اٹھارویں ترمیم کے فضائل میں بھی مبالغہ آمیزی اور صریح جھوٹ سے کام لیا گیا۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ ہم نے آئین پاکستان کا اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا ہے ار اس میں ہونے والی ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا "کنکرنٹ لسٹ" کا خاتمہ کرکے آپ نے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا یا اس کا حلیہ بگاڑ دیا؟
"کنکرنٹ لسٹ" تو تہتر کے آئین کے اس بنیادی مسودے کا حصہ تھی جا بھٹو صاحب کے دور میں بنایا گیا؟ پارلیمان کی کارروائی میں کہیں کوئی ایک فقرہ دکھا دیجیے جہاں بھٹو صاحب نے یا کسی حکومتی رکن نے ایسی کوئی بات کی ہو کہ ہم بہت جلد کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کر دیں گے؟ چلیں حزب اختلاف کا کوئی ایک مطالبہ ہی دکھا دیجیے جس میں کہا گیا ہو کہ کنکرنٹ لسٹ نہیں ہونی چاہیے۔
تہتر کے آئین میں ملک کا نظام چلانے کے بنیادی تین طریقہ کار تھے۔ وہ معاملات جو وفاق کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ دوسرے وہ جو صوبوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور تیسرے وہ جن کو صوبے اور وفاق مل کر دیکھتے ہیں۔ اس تیسری قسم کو " کنکرنٹ لسٹ " کہا جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے اسے ختم کر دیا۔ ایسے ایسے معاملات صوبوں کے حوالے کر کے وفاق کو بارہ پتھر باہر کر دیا گیا کہ حیرت ہوتی ہے یہ ملک چلایا جا رہا تھا یا مذاق کیا جا رہا تھا۔کسی بھی قوم کی نفسیاتی اور فکری تشکیل میں اس قوم کا نظام تعلیم اور نصاب بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اجتماعی سطح پر طے کیا جاتا ہے کہ ہمارا نصاب کیا ہو گا۔
اٹھارویں ترمیم نے اس اہم معاملے کو بھی بازیچہ اطفال بنا دیا اور اسے خالصتا صوبائی معاملہ قرار دے دیا۔ امن عامہ بھی خالصتا صوبائی معاملہ قرار پایا چنانچہ آج تک وفاق اور صوبے جھگڑ رہے ہیں کہ آئی جی کی تعیناتی کیسے ہو گی اور کون کرے گا۔ صحت بھی خالصتا صوبائی معاملہ ہو گیا یعنی اب ملک میں ایک نہیں بلکہ چار عدد ڈرگ قوانین ہوں گے۔ صوبوں کے پاس اس سب معاملات کو دیکھنے کے لیے صلاحیت ہی نہیں ہے لیکن وسائل انہیں فراہم کر دیے گئے ہیں وہ کہاں خرچ ہو رہے ہیں، معلوم نہیں۔ اب سندھ کے ہیلتھ بجٹ کو این جی ا وز پر وارا جا رہا ہے تو حیرت کیسی؟ آپ ان کے کمالات دیکھیے انہوں نے سیاحت (ٹورزم) کو بھی خالصتا صوبائی معاملہ قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کی اس کے سوا کوئی توجیح میرے ذہن میں تو نہیں آ رہی کہ شاید کسی کی نظریں پی ٹی ڈی سی کی اربوں کی پراپرٹی پر ہوں۔
صوبے اب اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ وہ براہ راست بغیر ملکی قرض لے لیں۔ بی آر ٹی اس بیرونی قرض کا عملی نمونہ ہے۔ وسائل میں وفاق کا شیئر اب سمٹ کر 42 اعشاریہ 5 فیصد رہ گیا ہے جب کہ صوبے 57 اعشاریہ 5 فیصد لے رہے ہیں۔ اوپر سے آرٹیکل 160 کی کلاز 3 اے کہہ رہی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر سابقہ ایوارڈ میں دیے گئے شیئر سے کم نہیں ہو سکتا۔ دل چسپ بات یہ کہ اس کے باوجود حکمرانی کا سوال وفاق سے کیا جاتا ہے اور تعزیر کا کوڑا صرف وفاق کی کمر پر برس رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سندھ اب جی ایس ٹی اکٹھا کرنے کا حق مانگ رہا ہے اور کے پی کے ہائیدرل پراجیکٹس کے منافع پر حق جتانا شروع کر دیاہے( بجلی کے لائن لاسز البتہ وفاق کے کھاتے میں ہوں گے)۔ اس میں قباحتیں بھی گیر معمولی ہیں۔ جی ایس ٹی وفاق لیتا تھا تو پھر صوبوں میں تقسیم کا کوئی فارمولا بھی تھا۔ اب جی ایس ٹی صوبے لیں گے تو بلوچستان کے حصے میں کیا آئے گا؟
ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے۔ وسائل میں سے 57 اعشاریہ 5 فیصدکا شیئر تو صوبوں نے لے لیا لیکن بیرونی قرض کی واپسی کا سارا بوجھ وفاق پر ہے۔ صوبوں نے بوجھ شیئر ہی نہیں کیا۔ شور تو ہم سب مچاتے ہیں کہ ٹیکس کیوں بڑھ رہا ہے لیکن اس پر غور نہیں کرتے کہ جب ٹیکس ریونیو کا 57 اعشاریہ 5 فیصدصوبے لے جائیں تو وفاق اس کار خیر کے علاوہ اور کیا کرے گا؟ ۔
فسکل کوآرڈی نیشن کمیٹی کی سفارشات تو ویسے ہی " نان بائنڈنگ" ہیں۔ زراعت اور اس سے منسلک سروسز پر ٹیکس اب صوبے لیتے ہیں۔ ملک میں کوئی ہنگامی صورت پیدا ہو جائے تو وفاق پھر چندے ہی مانگے گا۔