Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Atiqa Odho Case, Suo Moto Par Qanoon Sazi Ki Zaroorat

Atiqa Odho Case, Suo Moto Par Qanoon Sazi Ki Zaroorat

عتیقہ اوڈھو کیس بطور قوم ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے۔ اب یہ ہمارے ذوق کا امتحان ہے ہم اپنے لا ابالی پن میں طنز کے چند فقرے اچھال کر آگے بڑھ جاتے ہیں یا ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ رک کر غور کرنے کو تیار ہیں کہ وقت کتنا بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضے کیا ہیں۔ دو سال پہلے جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو کی حدود اور دائرہ کار کے واضح تعین کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ عتیقہ اوڈھو کیس نے گویا یہی سوال ایک بار پھر قوم کے سامنے رکھ دیا ہے کہ کیا سوموٹو اسی شکل میں گوارا ہے یا اس میں کچھ اصلاحات ضروری ہو چکی ہیں۔

آئین میں سوموٹو کی بابت صرف یہ لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے کسی عوامی اہمیت کے معاملے میں سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لے سکتی ہے۔ یہ وضاحت آئین میں کہیں موجود نہیں ہے کہ یہ معاملات کون کون سے ہوں گے۔ چنانچہ یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ کیا عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے شراب کی بوتلوں کی مبینہ برآمدگی عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے اور کیا اس مسئلے کا تعلق شہریوں کے بنیادی حقوق سے تھا؟

آئین میں سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کا مطلب کیا ہے؟ آئین کے تحت سپریم کورٹ سے مراد جناب چیف جسٹس اور دیگر جج حضرات ہیں۔ تو کیا آئین سازوں نے یہ اختیار سپریم کورٹ کو بطور ادارہ دیا ہے یا سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی طور پر بھی سوموٹو لے سکتے ہیں۔ بظاہر یہ سوال غیر منطقی سا لگتا ہے کیونکہ جب ایک اکیلا جج فیصلہ کرتا ہے تو اسے بھی سپریم کورٹ ہی کا فیصلہ کہا جاتا ہے تا ہم جب ہم عملی مسائل دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ سوال بہت اہم اور منطقی ہے۔

عتیقہ اوڈھو کا تعلق پرویز مشرف کی جماعت سے تھا۔ وہ مشرف صاحب کی پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات تھیں۔ جناب افتخار چودھری اور پرویز مشرف صاحب کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے ہم سب واقف ہیں۔ چنانچہ جب افتخار چودھری صاحب نے یہ سوموٹو لیا تو اس کے ساتھ ہی اس سوال نے بھی جنم لے لیا کہ سوموٹو کا اختیار کیا ہر معزز جج کو بھی انفرادی حیثیت میں بھی حاصل ہونا چاہیے یا اس کے لیے الگ سے تین یا چار رکنی کمیٹی ہونی چاہیے جو فیصلہ کرے کہ کسی بھی مسئلے میں سوموٹو نوٹس لینا چاہیے یا نہیں۔ جو معزز جج کسی معاملے میں سوموٹو نوٹس جاری کرنا چاہتے ہوں وہ اس کمیٹی کو مطلع کریں اور یہ کمیٹی اس بابت فیصلہ کر لے کہ سوموٹو نوٹس لینا چاہیے یا نہیں۔

جو معزز جج صاحبان سوموٹو لیتے ہیں، بالعموم وہی اس کیس کی سماعت کرتے ہیں۔ سنجیدہ قانون دانوں کی رائے میں یہ انتظام گویا مدعی، پراسیکیوشن اور منصف کے دائرہ کار کی مسلمہ تقسیم کو متاثرکر دیتا ہے اور یہ سارے کردار ایک فرد کی ذات میں سمٹ جاتے ہیں۔ اس سے پیچیدگی پیدا ہو یا نہ ہو، اس کا امکان ضرور رہتا ہے۔ تو کیا یہ مناسب نہ ہو کہ سو موٹو لینے کی بابت فیصلہ کرنے والے جج صاحبان الگ ہوں اور اس کیس کی سماعت کرنے والے جج صاحبان الگ ہوں۔ اسی طرح کا ایک الگ بنچ بنا دیا جائے جو سوموٹو مقدمات کی سماعت کرے؟ یعنی قانون سازی میں ایسا اہتمام موجود ہو کہ جو معزز جج سو موٹو نوٹس لینے کا فیصلہ کریں وہ اس نوٹس کی سماعت سے الگ رہیں۔

سوموٹو کو آرٹیکل 10 اے میں موجود فیئر ٹرائل کے مسلمہ اصول سے مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ فیئر ٹرائل کے بنیادی اصولوں میں یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ ملزم کو اپیل کا حق ملے۔ یعنی ماتحت عدالت میں کیس چلے اور ایک اپیل ہائی کورٹ میں ہو پھر دوسری اپیل سپریم کورٹ میں ہو۔ بھٹو صاحب کا کیس ماتحت عدالت کی بجائے سیدھا ہائی کورٹ میں چلا اوراس پر صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکی۔ اس پر یہی اعتراض آج بھی ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب ہائی کورٹ میں اپیل نہ کر سکے اور یوں وہ ا پیل کے ایک حق سے محروم رہ گئے۔ سوموٹو میں بعض اوقات تو معاملہ ماتحت عدالت میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن بسااوقات سپریم کورٹ ہی میں فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں اپیل کہاں کی جائے گی اور اپیل نہیں کی جائے گی تو آرٹیکل 10 اے کہاں جائے گا؟

ایک اور مسئلہ بھی قانون سازوں کی توجہ کا طالب ہے۔ جب سپریم کورٹ کسی سوموٹو کی سماعت خود کرتی ہے تو گویا وہ ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت ہے وہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ قانون سازوں کو اس پر بھی کچھ ضابطے وضع کر دینے چاہییں تا کہ سوموٹو کا عمل مزید جامع اور مفید بن سکے۔

سوموٹو میں فرد، انتظامیہ اور حکومت میں موجود فرق بھی قانون سازی کا متقاضی ہے۔ عدالت بنیادی حقوق کے معاملے میں حکومت اور اس کی مشینری کو طلب کرتی ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن جب عدالت کسی فرد کو طلب کرتی ہے اور نو سال مقدمہ چلنے کے بعد وہ فرد بے گناہ قرار پاتا ہے اور مقدمے سے بری ہو جاتا ہے تو اس فرد کے ازالے کی کوئی صورت نکالنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اس کا وقت صرف ہوا، پیسے لگے، اس نے وکیل کیا، میڈیا ٹرائل کا سامنا کیا، نو سال کے بعد وہ بری ہوجائے تو ازالے کی کیا صورت ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت حال ہے۔ اس صورت حال کو قانون سازی کا موضوع بنایا جانا چاہیے۔ اور ایسی صورت حال میں قومی خزانے سے کچھ رقم بطور ازالہ مختص کرنی چاہیے۔

سوموٹو بعض صورتوں میں ناگزیر ہو جاتا ہے اور نعمت ثابت ہوتا ہے لیکن یہ کسی بھی شکل میں حکومت کی عدم فعالیت کا متبادل نہیں بن سکتا۔ مثالی صورت یہی ہوتی ہے کہ حکومت اپنے شعبوں کے معاملات کو اچھے طریقے سے چلائے۔ استثنائی صورت میں البتہ سوموٹو موجود ہے لیکن اسے استثنائی آپشن ہی رہنا چاہیے اور اس کی آئینی حدود اور ضابطہ کار کا بڑے واضح انداز میں تعین بھی کر دیا جانا چاہیے۔

دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ رولز میں بھی سوموٹو کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، مکمل خاموشی ہے۔ حالانکہ یہ رولز دستور پاکستان کے بننے کے سات سال بعد وضع کیے گئے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نوے کی دہائی سے پہلے کبھی عدالت نے سوموٹو کا استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ اب چونکہ سوموٹو نوٹس لیے جاتے ہیں اور ان کی ایک خاص افادیت بھی ہے اس لیے اس پر معزز عدلیہ اور قانون دان حلقوں کی مشاورت سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عتیقہ اوڈھو کیس اسی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran