Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Balochistan, Intikhabi Islahat Zaroori Hain

Balochistan, Intikhabi Islahat Zaroori Hain

بلوچستان کا مسئلہ محض عسکریت اور دہشت گردی نہیں ہے، جوہری طور پر یہ سماجی اور سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا حل بھی محض انتظامی اقدامات سے ممکن نہیں، اس کے لیے لازم ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ا صلاحات متعارف کرائی جائیں۔ دہشت گردی اور عسکریت کے پیچھے بھلے دشمن ممالک کی سرپرستی اور سرمایہ کاری موجود ہوگی لیکن اس دہشت گردی کو خام مال معاشرے کی سماجی اور سیاسی فالٹ لائن سے ملتا ہے۔ جب تک سماج کی یہ فالٹ لائن نہیں بھری جائے گی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

مروجہ قوانین کو پامال کرتے ہوئے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے تو وفاق کی ایک اکائی کو، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 43 فیصد ہے، قومی اسمبلی میں، مزید نشستیں دے کر بااختیار کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اگر قومی اسمبلی کے لیے براہ رست ووٹ کی شرط ساقط کر کے مخصوص نشستوں کا بندوبست متعارف کرایا جا سکتا ہے تو کیا بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں کے تعین کے لیے محض آبادی کے مروجہ فارمولے پر اصرار کرنے کی بجائے اس میں نرمی کرتے ہوئے کچھ آؤٹ آف باکس، نہیں سوچا جا سکتا؟

مروجہ ترتیب یہ ہے کہ ہر صوبے کی قومی اسمبلی کی نشستوں کا تعین اس کی آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ بلوچستان کی آبادی بہت کم ہے۔ چنانچہ 342 کی قومی اسمبلی میں بلوچستان کے پاس صرف 16 نشستیں ہیں۔ وہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں نہ کوئی قانون بننے سے روک سکتے ہیں۔ وہ عملا قانون سازی سے دور ہو چکے ہیں اور شراکت اقتدار کے احساس سے محروم۔

مروجہ انتخابی بند وبست میں اس نکتے کی طرف توجہ دلائی جائے تو عمومی جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس چیز کا ازالہ کرنے کے لیے سینیٹ موجود ہے جہاں ہر صوبے کو برابر کی نمائندگی دی گئی ہے لیکن یہ دعوی کتابی حد تک درست ہو سکتا ہے، حقائق کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ سینیٹ کی نشستوں سے جڑی زمینی حقیقتیں یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ اس خلیج کو نہیں پاٹ سکیں جو وفاق کی ایک اکائی میں سماجی سطح پر پیدا ہو رہی ہے۔

وفاق کی ایک اکائی کو شراکت اقتدار کا احساس دلانے کے لیے ناگزیر ہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں کی تعداد کا تعین محض آبادی کی بنیاد پر نہ کیا جائے بلکہ اس پر از سر نو غور کرتے ہوئے کوئی راستہ نکالا جائے، بالکل ایسے ہی جیسے خواتین کی مخصوص نشستوں کے باب میں نکالا جا چکا ہے۔

بلوچستان عملا ہم سے کٹ چکا ہے۔ جس صوبے میں صرف 16نشستیں ہوں، عمران خاں، نوازشریف یا آصف زرداری وہاں جا کر وقت کیوں ضائع کریں۔ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان جانا وقت ضائع کرنے کے مترادف جانا چنانچہ آج فیڈریشن میں بلوچستان سٹیک ہولڈر ہی نہیں رہا۔ قومی سیاسی بیانیے کی صورت گری میں بلوچستان غیر متعلق ہو چکا ہے۔

جب یہاں مختلف عنوانات کے تحت سیاسی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں تو آدمی سوچتا ہے کیا اجتماعی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق صرف لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، جہلم، اور راولپنڈی وغیرہ کی آسودہ حال اشرافیہ کو ہے یا ان کے تعین میں کوئٹہ، تربت، خضدار، لورا لائی، نوشکی، ژوب، خاران، لسبیلہ، پشین، آواران، کوہلو، چاغی اور قلات جیسے شہروں کا بھی کوئی حق ہے؟

اس سماجی اور سیاسی خلاء کا فائدہ ملک دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں۔ یہاں سے انہیں خام مال ملتا ہے۔ چند ماہ پہلے جب کراچی میں برادر ملک چین کے عملے پر خود کش حملہ ہوا تھا تو یہ پاکستان میں پہلا ایسا خود کش عملہ تھا جو کسی خاتون نے کیا تھا۔ گارڈین نے لکھا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے ایک نئے چیلنج کی ابتدا ہے۔

Fiminisaation of terrorism in Baluchistan کے عنوان سے دنیا بھر میں تحقیقاتی مقالہ جات لکھے گئے لیکن پاکستان کا سیاسی اور فکری منظر نامہ اس سے بے نیاز رہا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہ سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب قریب نصف درجن ایسے کیسزسامنے آ چکے ہیں جن میں دہشت گردی کے واقعات میں خواتین کو مختلف مراحل میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ جو کیسز ابھی اوجھل ہیں ان کی نوعیت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

دہشت گردی کا یہ سماجی پہلو بہت توجہ طلب ہے۔ ایک روایتی معاشرے میں جہاں خواتین کا غیر معمولی احترام ہے، ان کا ایسے واقعات میں ملوث ہونا ایک ایسا المیہ ہے جس کا سماجی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان واقعات کا انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کی صورت گری پر بھی اثر پڑے گا۔

خواتین کو جب ایسے واقعات میں استعمال کیا جائے گا تو ان کے حوالے سے بھی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو ایک جہت ملے گی، مجبوری ہوگی کہ ان کی تلاشی ہوگی، انہیں روکا جائے گا، ان سے پوچھ گچھ ہوگی، تفتیش ہوگی۔ تو اس سے بھی علیحدگی پسند قوتیں فائدہ اٹھانا چاہیں گی اور وہ اسے ایک سماجی المیے کا عنوان بنانے کی کوشش کریں گی۔ اس سے بڑے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال کا سماجی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری پارلیمان اور ہمارے فیصلہ ساز اس سماجی پہلو کی سنگینی کو کس حد تک سمجھ رہے ہیں؟

یہ نزاکت ہمیں جتنی جلد سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ بلوچستان غیر محسوس طریقے سے قومی دھارے سے کٹتا جا رہا ہے چونکہ اس کی آبادی کم ہے اور اس کی قومی اسمبلی کے کل حلقوں کی تعداد صرف 16 ہے جب کہ صرف لاہور میں قومی اسمبلی کے آٹھ حلقے ہیں اس لیے اسے ہر اہم معاملے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی قیادت بلوچستان جانا اور وہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا وقت اور وسائل کا زیاں سمجھتی ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہاں معاملہ محض آبادی یا چند نشستوں کا نہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ وفاق کی ایک اکائی کو قومی دھارے سے دور کر دیا گیا ہے۔ اس خلاء کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔ اجتماعی زندگی میں کہیں بھی کوئی فیصلہ ہو رہا ہو، سوتیلا پن بلوچستان کے وجود میں نشتر کی طرح اتر جاتا ہے۔ ملک دشمن عناصر کو خام مال یہیں سے ملتا ہے۔ یہ قومی سیاسی قیادت ہوتی ہے جو وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور اپنے مسائل کا سماجی مطالعہ کرتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ سماجیات کا معاملہ تو کبھی یہاں زیر بحث ہی نہیں آ سکا۔

حالانکہ انتہا پسندی سے لے کر دہشت گردی تک ہر معاملے میں سماجی رجحانات کا اہم کردار ہے۔ ہمیں کراچی خود کش حملے کے بعد ہی ایک بھر پور سماجی مطالعہ کر نا چاہیے تھا کہ بلوچستان میں وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر خواتین بھی دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہی ہیں۔ پھر اس مطالعے کی بنیاد پر سفارشات مرتب کرنی چاہیے تھیں اور ان سفارشات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے تھا کہ اب کرنے کا کام کیا ہے۔

ہمارا مسئلہ بھی منیر نیازی والا ہے:ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran