Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Balochistan Ki Koi Khabar?

Balochistan Ki Koi Khabar?

کیا حالات حاضرہ صرف جی ٹی روڈ اورا س کے اطراف کی ٹریفک کا نام ہے؟ لاہور سے نکلی اور ریڈ زون پہنچ گئی؟ دیہی سندھ، بلوچستان، کے پی، اور دیگر دور دراز کے چھوٹے شہروں کی ہمارے قومی بیانیے میں حیثیت کیا ہے اور ان کا مقام کیا ہے؟

ہمیں سوچنا ہوگا کہ خبر اور بحث کا منبع اور مرکز صرف لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، جہلم، اور راولپنڈی وغیرہ کی آسودہ حال اشرافیہ اور اس کا بیانیہ ہے یا ان کے تعین میں کوئٹہ، تربت، خضدار، لورا لائی، نوشکی، ژوب، خاران، لسبیلہ، پشین، آواران، کوہلو، چاغی اور قلات جیسے شہروں کا بھی کوئی حق ہے؟

ہماری خبریں بھی جی ٹی روڈ تک محدود ہو چکی ہیں اور ہمارے تجزیے بھی۔ لاہور سے ریڈزون، ریڈزون سے لاہور۔ بیچ میں تھوڑا سا وقت کراچی پشاور کے لیے اور بس۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا ابلاغی، کسی کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام نہیں۔ بلوچستان اس وقت خبر کا موضوع بنتا ہے جب یہاں کوئی حادثہ ہو جائے۔ ہمارے قومی بیانیے میں بلوچستان کا اب یہی ایک حوالہ رہ گیا ہے۔ سر شام کم و بیش سینکڑوں ٹاک شوزہوتے ہیں اور دن بھر درجنوں پریس کانفرنسیں دکھائی جاتی ہیں، سوال یہ ہے ان میں بلوچستان کا حصہ کتنا ہے۔ ملک کے نصف رقبے پر محیط غیر معمولی اہمیت کے حامل صوبہ بلوچستان سے گذشتہ دو یا چار یا چھ سالوں میں کتنے ٹاک شو ہوئے ہیں اور قومی قیادت نے کتنی بار وہاں کا دورہ کیا ہے؟

سینیٹر جہانزیب جمالدینی ایک روز تشریف لائے، گفتگو کے دوران انہیں کسی چینل سے فون آیا۔ انہیں ٹاک شو میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی انہوں نے دو ٹوک انداز سے معذرت کر لی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے جن چینلز کو ہم قومی مسائل پر بات کرتے وقت یاد نہیں آتے، اور جنہیں ہم صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب بلوچستان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو ہم ان چینلز پر جانا پسند نہیں کرتے۔ ہم پاکستان کے شہری اور پاکستان کے سیاست دان ہیں تو ہم سے پاکستان کے دیگر امور پر بات کیوں نہیں کی جاتی۔ ہمارا اور ہمارے صوبے کا حوالہ کیا صرف حادثات اور دہشت گردی ہے۔

آج اخبار کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی خبر دیکھی تو جہانزیب جمالدینی صاحب کی یہ بات یاد آ گئی۔ خبر یہ تھی کہ بیرک گولڈ نے (جو کہ ریکوڈک مائننگ کمپنی ہے) اپنے دو سالہ انٹر نیشنل گریجویٹ پروگرام کے لیے بلوچستان یونیورسٹی سے 9 طلباء کا انتخاب کیا ہے۔ ان طلباء کا انتخاب بلوچستان بھر سے ہوا ہے اور یہ طلباء پنجگور، پشین، کوئٹہ، لورالائی، خضدار، گوادر، کے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی مہارت کا میدان الیکٹریکل انجینئرنگ، مکینیکل انجینیئرنگ، سول انجینیئرنگ، اور جیالوجی جیسے شعبے ہیں۔ ان میں سے چار طالبات ہیں۔ تمام طلباء و طالبات کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور یہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے طلباء ہیں۔

خبر کے مطابق اس انتخاب کے لیے بلوچستان یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف بلوچستان، یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اینٖ مینجمنٹ سائنس سے رابطے کیے گئے اور میرٹ پر طلباء کا انتخاب کیا گیا۔ تا کہ یہ طلباء اپنے شعبے میں مہارت حاصل کریں اور کل کو ریکو ڈک کے معاملات میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ خبر، میری ناقص رائے میں، قومی ذرائع ابلاغ میں وہ جگہ نہیں پا سکی جو اس کا حق تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ بلوچستان سے آنے والی اچھی خبر کو خبر کیوں نہیں سمجھا جاتا۔

بلوچستان وفاق پاکستان کی ایک اکائی ہے۔ محض آبادی کم ہونے کی وجہ سے اسے یوں نظر انداز کیا جانا ایک قومی المیہ ہے جو ایک عرصے سے ہر معاملے میں روا رکھا جا رہا ہے۔ یہ نزاکت ہمیں جتنی جلد سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ چونکہ اس کی آبادی کم ہے اور اس کی قومی اسمبلی کے کل حلقوں کی تعداد صرف 16 ہے جب کہ صرف لاہور میں قومی اسمبلی کے آٹھ حلقے ہیں اس لیے اسے ہر اہم معاملے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی قیادت بلوچستان جانا اور وہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا وقت اور وسائل کا زیاں سمجھتی ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہاں معاملہ محض آبادی یا چند نشستوں کا نہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ وفاق کی ایک اکائی کو قومی دھارے سے دور کر دیا گیا ہے۔ اجتماعی زندگی میں کہیں بھی کوئی فیصلہ ہو رہا ہو، سوتیلا پن بلوچستان کے وجود میں نشتر کی طرح اتر جاتا ہے۔ یہ قومی سیاسی قیادت ہوتی ہے جو وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے لیکن ہماری قیادت بلوچستان کو ایک اکائی کی بجائے قومی اسمبلی کے صرف 16 حلقے سمجھتی ہے۔ اتنے سے حلقوں کے لیے کون وہاں جائے اور وہاں کی خاک چھانے۔ چنانچہ قومی سیاسی قیادت کی جانب سے برائے وزن بیت کبھی کوئی جلسہ ہوتا بھی ہے توصرف کوئٹہ میں۔ اس رویے کا ازالہ ہونا چاہیے۔ قومی سیاسی قیادت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ وفاق کی تمام اکائیوں کو وقت دے۔ اسی رویے کی ضرورت ذرائع ابلاغ کو بھی ہے۔

سیاسی بیانیہ ہو یا صحافتی، بلوچستان کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ ٹی وی چینلز کی بارات اتری پڑی ہے لیکن بلوچستان سے کوئی ٹاک شو نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں کو ٹاک شوز میں بہت کم بلایا جاتا ہے اور جب بلایا بھی جاتا ہے تو کسی قومی موضوع پر نہیں بلکہ وہاں کے کسی معاملے کے تزویراتی پیرائے میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے۔

بلوچستان کے حوالے سے ہمیں اپنی گرہوں کو کھولنا ہوگا۔ اس وقت اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم بھی بلوچستان سے ہے، چیف جسٹس کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، وزیر داخلہ بھی بلوچستان کا ہے، چیئرمین سینیٹ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ اہم مناصب میں اس بلوچستان کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔

بلوچستان کے حوالے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر وسائل کی تو بات ہی کیا، بلوچستان میں سیاحت کے غیر معمولی امکانات ہیں۔ اس کی ساحلی پٹی میں اتنا حسن ہے کہ آدمی دیکھ کر حیران رہ جائے۔ کراچی سے آپ نکلیں اور ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلتے بھلے آگے چاہ بہار تک چلے جائیں، یہ راستہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ ہر پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد بلوچستان کی زمین کے حسن کا ایک نیا رنگ آدمی کے سامنے ہوتا ہے۔ صرف اسی راستے سے منسلک سیاحتی امکانات کو یقینی بنا لیا جائے تو اتنا ریوینیو اکٹھا ہو سکتا ہے کہ پورے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ بلوچستان کو خدا نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ خدا کی عطا میں کوئی کمی ہے، بس ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔ امن کو یقینی بنانا ضروری ہے اور بلوچ طلباو طالبات کیلیے ایسے مزید امکانات کو تلاش کرنا ہوگا جو انہیں علم وہنر کے ذریعے قومی زندگی میں باوقار طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں۔

پاکستان صرف لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، جہلم، اولپنڈی، کراچی کا نام نہیں، کوئٹہ، تربت، خضدار، لورا لائی، نوشکی، ژوب، خاران، لسبیلہ، پشین، آواران، کوہلو، چاغی اور قلا ت بھی پاکستان ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran