Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Barsat Ki Ganth

Barsat Ki Ganth

مارگلہ میں سال کا آغاز برسات سے ہوتاہے اور برسات سے ہی یہاں سالوں کا شمار ہوتا ہے۔

یہ بات مجھے تب معلوم ہوئی جب جنگلوں میں پھرتے ایک بکروال سے میں نے پوچھا کیا کبھی کسی تیندوے نے تمہارے ریوڑ پر حملہ کیا؟ اس نے لاٹھی کی ٹیک لگائی اور انگلیوں پر گن کر بتانے لگا کہ تین برسات پہلے اس کے دو جانور وں کو تیندوا کھا گیا تھا۔ بدھو بن سے اوپر ایک چراگاہ ہے۔ ساون آتا ہے تو اس پر جوبن آ جاتا ہے۔ یہیں کہیں ایک سہہ پہر وادی کے گوشے سے بانسری کی آوا سنی تو کھچا چلا گیا۔ عارف چرواہا بیٹھا سر بکھیر رہ تھا۔ پوچھا کب سے بجا رہے ہو؟ بولا: بہت مدت ہو گئی، کم از کم پندرہ برساتیں پہلے سیکھی تھی۔

شادرا میں چند سال پیلے تیندووں نے جاڑے کی رت میں گائوں کے اندر آکر لوگوں کے مویشیوں پر حملے شروع کر دیے۔ امام مسجد کی گائے مار دی، ایک بکروال کی بکریاں کھا گئے اور ایک خاتون کی بھیڑ مار دی۔ میں یہ خبر سن کر وہاں پہنچا تو دن ڈھل رہا تھا اور وادی دھند میں لپٹی پڑی تھی۔ سڑک کنارے ایک مزار کے ساتھ ایک بزرگ حقہ تازہ کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کیا تیندوے ہر سال یہاں حملہ کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: ہر سال تو ایسا نہیں ہوتا۔ چھ برسات پہلے تیندووں نے ایک گائے ماری تھی، اس کے بعد اب آئے ہیں۔

یہ مارگلہ کے لوگ سالوں کا شمار برسات سے کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے ہاں کسی کی عمر بیان کرنا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ چکا۔ یہ لوگ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اتنے جاڑے بیت گئے یا اتنی بہاریں گزر گئیں۔ برسات ہی کیوں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے پانچ برساتیں بیت گئیں۔

ایک روز جب مارگلہ کے اس پار مکھنیال کے فاریسٹ ریسٹ ہائوس میں شام اتر چکی تھی اور بارش زوروں پر تھی، میں برآمدے میں بیٹھا بارش سے لطف انداوز ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی گائوں کے دو بزرگ بھی بیٹھے آگ تاپ رہے تھے اور قہوے کا دور چل رہا تھا۔ میں نے پوچھا کیا یہاں سیاح آتے ہیں؟ ایک بزرگ نے فارسی کا شعر پڑھا اور کہا یہاں کون آتا ہے۔ ہاں البتہ دو برسات پہلے یہ سڑک بنی ہے تو کچھ لوگ آنا شروع ہو گئے ہیں۔ برستی بارش میں اسی سوال نے آ کر گرفت میں لے لیا کہ یہ لوگ سالوں کا تعین برسات سے ہی کیوں کرتے ہیں۔ بابا جی کا فارسی شعر سنانا اس بات کا اعلان تھا کہ وہ پرانے وقتوں کے صاحب علم تھے۔ وہ یقینا اس سوال کا جواب دے سکتے تھے۔

میں ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ آپ کی گنتی کا مرکزی نکتہ برسات کیوں ہے۔ آپ بہار، خزاں یا جاڑے سے بھی تو سالوں کا حساب کر سکتے ہیں۔ بابا جی نے سوال سنا اور کہنے لگے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا دو برساتوں کے درمیان جو وقفہ ہوتا ہے، اسے برس کہتے ہیں۔ اب کوئی یہ کہہ لے کہ اس واقعے کو چار برس ہو گئے یا کوئی یہ کہہ دے کہ چار برساتیں ہوگئیں، بات تو ایک ہی ہے۔ بابا جی نے بتایا کہ برسات کو سنسکرت میں ورسات کہتے ہیں۔ تو دو ورساتوں کے بیچ کی جو مدت ہے اسے " وریاں " بھی کہا جاتا ہے۔ اب کوئی کہے کہ اتنے برس کی بات ہے یا وہ کہے کہ اتنے وریاں پہلے کی بات ہے یا کوئی یہ کہہ لے اتنی برساتیں پہلے کی بات ہے، ہر صورت میں مطلب ایک ہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پرانے وقتوں میں عمر کا تعین برسات سے ہوتا تھا۔ جب برسات کی جھڑی لگتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ایک برس بیت گیا۔ گھر میں رکھی رسی پر ایک گانٹھ لگا دی جاتی تھی کہ ایک برسات اور آگئی اور عمر کا ایک اور سال تمام ہوا۔ جس نے جتنی برساتیں دیکھی ہوتی تھی اتنی ہی اس کی گانٹھیں پڑ چکی ہوتی تھیں اور جس کی جتنی گانٹھیں ہوتی تھیں اتنی ہی اس کی عمر ہوتی تھی۔ اسی کو برس گانٹھ کہا جاتا تھا۔ جو بعد میں سال گرہ کہلایا جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں اس روایت میں کتنی صداقت تھی لیکن پہاڑوں میں چرواہے اور داستان گو جو سنا دیں اسے سوغات سمجھنا چاہیے۔

بھادوں کی برسات مارگلہ کا حسین ترین موسم ہے۔ میٹھی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ خشک چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ سوکھی ندیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ اسُو کے اختتام تک ندی زوروں سے بہتی رہتی ہے۔

لوگ جسے موسم گرما کہتے ہیں مارگلہ میں یہ چار موسموں کا نام ہے۔ وساکھ میں موسم گرما مارگلہ میں اترتا ہے۔ چھائوں ٹھنڈی ہوتی ہے اور دھوپ میں حدت ہوتی ہے۔ جیٹھ میں گرمی بڑھ جاتی ہے مگر لو نہیں ہوتی۔ ہاڑ میں گرمی عروج پر ہوتی ہے، لو چلتی ہے اور چشمے کے کنارے سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر ساون بارش اور حبس لے کر آتا ہے۔ بھادوں میں بارش رہتی ہے مگر حبس چلا جاتا ہے۔ بھادوں جاتے جاتے موسم گرما ساتھ لے جاتا ہے۔ اسُو جاڑے کا سندیسہ لے کر آتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ لیجیے موسم سرما آ گیا۔ موسم سرما کے بھی چھ رنگ ہوتے ہیں۔ اسُو میں آتا ہے تو پھگن تک رہتا ہے۔ اسُو میں ٹھنڈ کی نوید آتی ہے۔ کتک میں ٹھنڈ مارگلہ میں اتر آتی ہے۔ مگھر تک اس میں اتنی تندی آ چکی ہوتی ہے کہ جنگل میں چلتے چلتے بدن دھوپ تلاش کرتا ہے۔ اسو سے مگھر تک یہ پت جھڑ کا موسم ہے۔ پوہ اور ماگھ سردیوں کا عروج ہوتا ہے۔ ماگھ میں بارشیں جم کر ہو جائیں تو کبھی کبھار مارگلہ پر برف بھی پڑ جاتی ہے۔ پھگن میں ندی کنارے پھول کھلنے لگتے ہیں اور تتلیوں کے تازہ دم قبیلے ندی کے ساتھ ساتھ پگڈنڈیوں پر خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ چیت میں کچنار کے درخت پھولوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ وساکھ سے موسم بدلنے لگتا ہے اور جیٹھ ہاڑ کے بعد پھر وہی برسات۔ ایک اور برسات آتی ہے اور ایک اور گرہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ساون رخصت ہو رہا ہے اور بھادوں آ رہا ہے۔ میں ندی کنارے بیٹھا ایک موسم کو جاتا اور دوسرے کو آتا دیکھ رہا ہوں۔ ندی کے اُس پار جہاں یہ دونوں موسم ملیں گے، ایک گانٹھ اور لگ جائے گی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran