بر صغیر کی سماجی قدروں سے لے کر اس کی معیشت تک اور معاشرتی ڈھانچے سے لے کر اس کی نفسیات تک، ہر چیز کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔ ایک نئی زبان متعارف نہیں کرائی گئی، غیر فطری طریقے سے مسلط کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر کا تعلیم یافتہ طبقہ کھڑے کھڑے ناخواندہ ہو گیا۔ بر صغیر کا معاشی استحصال ہوا۔ اس کے وسائل کو لوٹا گیا۔ اس کی نفسیات تباہ کر دی گئیں۔ ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو شعوری طور پر اپنے ماضی کے ہر نقش سے شرمندہ تھا۔ اسی طبقے کی سرپرستی کی گئی۔ چنانچہ برطانوی سامراج کا کارل مارکس جیسا مداح بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ برطانیہ نے ہندوستان کے سماج کے پورے ڈھانچے کو تباہ کر دیاہے اور تعمیر نو کی کوئی علامت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
برطانوی ماہر اقتصادیات اینگس میڈے سن (Angus Maddison) کے مطابق 1820 میں برصغیر کی معاشی قوت کا یہ عالم تھا کہ اس کی جی ڈی پی دنیا کی جی ڈی پی کا 16 فیصد تھی لیکن 40 19 کی دہائی میں یہ شرح سمٹ کر صرف 4 فیصد رہ گئی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات پروفیسر جیفری گیل ولیم سن (Jeffery Gale Williamson) کے مطابق جب برصغیر برطانوی سامراج کے بندوبست میں آیا تو اس کی اس کی جی ڈی پی کی شرح دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 25 سے 35 فیصد ہوتا تھا لیکن 1947 میں جب برطانیہ یہاں سے نکلا تو یہ جی ڈی پی صرف 2 فیصد رہ گئی تھی۔
پارتھا سارتھی نے لکھا کہ 18ویں صدی میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی ریاست میسور میں ملازمین کو ملنے والے معاوضے برطانیہ میں ملازمین کو ملنے والے معاوضوں سے زیادہ تھے۔ ریلوے اور نہری نظام جیسی چند چیزوں کی بنیاد پربرطانوی نو آبادیاتی نظام کے فضائل بیان کرنے والوں کے دلائل میں بعض ضمنی سچائیاں ہو سکتی ہیں لیکن عمومی صورت حال یہی تھی کہ برطانیہ نے اس علاقے کو ایک مقبوضہ علاقہ، اس کے باشندوں کو مفتوح رعایا اور اس کے وسائل کو مال غنیمت سمجھا۔
یہاں کی مقامی صنعت و حرفت کو تباہ کیا گیا۔ اس معاشی واردات کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ استا پتنائک کے مطابق 1765 سے 1938 تک برطانیہ نے برصغیر سے جو دولت نکالی اس کا حجم 45 ٹریلین ڈالر تھا۔ یہ رقم آج کے برطانیہ کے جی ڈی پی سے 17 گنا زیادہ ہے۔
اس نو آبادیاتی نظام میں کچھ ایسا انفراسٹرکچر البتہ ضرور کھڑا کیا گیا جس کا بعد میں پاکستان اور ہندوستان دونوں کو فائدہ ہوا۔ جیسے ریلوے اور نہری نظام۔ لیکن یہاں بھی یہ نکتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہاں بھی مطلوب و مقصود کچھ اور تھا۔ مثلا ریلوے کے ذریعے ہندوستان کا خام مال تیزی سے یہاں سے نکال کر برطانیہ پہنچانا مقصود تھا اور نہری نظام کے پیچھے مقامی زراعت کی بہتری مقصود تھی اور اس کی وجوہات تھیں۔ مزید یہ کہ جنگوں میں ضرورت کے لیے جو گھوڑے آسٹریلیا سے منگوائے جاتے تھے ان کا حصول گھوڑے پال سکیم شروع کر کے یہیں سے یقینی بنایا جانے لگا۔ جن میں جاگیریں تقسیم کی گئیں وہ بھی بندہ بے دام بن کر خدمت بجا لاتے رہے۔ جنہیں جاگیریں عطا کر کے "معززین" بنایا گیا، ان کے آسیب سے آج تک سماج آزاد نہیں ہو پا رہا۔
برطانوی مورخین، محققین اور اشرافیہ میں سفید فام برتری کا احساس تکلیف دہ حد تک نمایاں تھا۔ ان کے ہاں یہ تصور عام تھا کہ یورپ کے لوگوں کا یہ فرض ہے کہ غیر سفید فام اقوام کو تہذیب سکھائیں۔ ان کے خیال میں دنیا کی مہذب ترین قوم سفید فام تھے اور ان کے علاوہ ساری اقوام جاہل اور کم عقل تھیں۔ چنانچہ اب یہ سفید فام لوگوں پر فرض تھا کہ وہ باقی اقوام کو بھی جہالت سے نکالیں۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام اسی حیاتیاتی نسل پرستی، کے تصور پر کھڑا تھا جسے اب خود یورپ ٹھکرا چکا ہے(لیکن ہمارے لاشعور سے یہ بات ابھی تک نہیں نکل رہی)۔
یہی وہ تصور تھا جو ہمیں رڈ یارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling)کے ہاں بھی ملتا ہے۔ حیاتیاتی نسل پرستی کے علم بردار مغربی اہل فکر کی فہرست طویل ہے مگر رڈ یارڈ کپلنگ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ برصغیر(بمبئی) میں پیدا ہوا تھا اور پہلا انگریز ادیب تھا جسے نوبل انعام دیا گیا۔ ان کی نظم The White Man's Burden اس زعم برتری کا ایک واضح نمونہ ہے۔ اس نظم کا تعلق اگرچہ امریکی سامراجی بندو بست سے ہے لیکن یہ بنیادی طور پر برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع کے لیے لکھی گئی تھی۔
اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ سفید فام نسل کا فرض یہ ہے کہ غیر سفید فام ا قوام کو تہذیب سکھائے اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے سفید فاموں پر لازم ہے کہ وہ دیگر اقوام کو اپنا محکوم کر کے وہاں سامراجیت قائم کر لیں۔ اس میں چونکہ برطانیہ کا اپنا کوئی مادی فائدہ نہیں بلکہ یہ محکوم اقوام کی بہتری کے لیے ہے تو انہیں اس پر شکوہ کرنے کی بجائے شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہیں تہذیب سکھا دی گئی ہے اور سکھائی جا رہی ہے۔
اس تصور پر خاصا رد عمل آیا۔ مارک ٹوین (Mark Twain)نے اس کے جواب میں مضمون لکھا جس کا عنوان تھا: تاریکی میں بیٹھے شخص کے نام (To The Person Sitting In The Darkness)۔ ایچ ٹی جانسن (H.T.Johnson)نے اس کے جواب میں (Black man's burden The) لکھی۔ ڈاکٹر ہارورڈ ٹیلر نے (The Poor Man's Burden) لکھی۔ ارنسٹ کراسبی Ernst Crosby) (نے (The Real white Man's Burden)میں اپنا جواب آں غزل پیش کیا۔ جیمز بائوزر (James Dallas Bowser) نے (Take Up the Black Man's Burden) میں اپنا حال دل بیان کیا۔ افریقہ سے فلپائن تک اور خود امریکہ میں رد عمل آیالیکن آج ایک طالب علم کے طور پر یہ سوال میرے دامن سے لپٹا ہے کہ میرا معاشر ہ کہیں لاشعوری طور پر رڈیارڈ کپلنگ کے نکتہ نظر سے تو متاثر نہیں؟
سفید فام اقوام پر بوجھ ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے کمزور قوموں کا استحصال کیا۔ انہیں اپنی سامراجیت سے مجروح کیا۔ ان کی معیشت کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ان کی نفسیات کو گھائل کر دیا۔ انہیں صدیوں کم تر درجے کا انسان سمجھا اور اپنے پیچھے ایک ایسا طبقہ چھوڑ گئے جس کے ہاں اپنے احساس کمتری اور سفید فاموں کی برتری پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
یہ سارا فکری، سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر جب ہمارے سامنے ہو تو ہمارے لیے یہ جاننا آسان ہو جاتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں برصغیر میں نو آبادیاتی نظام نے قانون اور تعزیرات کا نیا نظام متعارف کرایا۔ یہ مطالعہ ہمیں اس نفسیاتی گرہ کی خبر بھی دیتا ہے جو ہمیں آج تک اس نو آبادیاتی قانونی ڈھانچے کے آزار سے نکلنے نہیں دے رہا اور اسی کو پہلی اور آخری آفاقی صداقت سمجھ کر ایک ورثے کے طور گلے سے لگا کر بیٹھا ہے۔ (ختم شد)