انگریز مورخین کی بھی اپنی ایک نفسیاتی گرہ ہے۔ انہوں نے جو تاریخ بیان کی ہے اس میں یہ لاشعوری اہتمام موجود ہے کہ ہم سے پہلے کچھ نہیں تھا، جو تھا کسی قابل نہیں تھا اور یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے برصغیر کو تہذیب سے روشناس کرایا، اسے ایک نظام دیا اور اسے ایک قانون اور قوت نافذہ جیسی چیزوں سے متعارف کرایا جو وہ اس سے قبل وہ جانتے ہی نہ تھے۔ تذکرۃ الواقعات، کے مقدمے میں اسی رویے پر معین الحق لکھتے ہیں :
"یہ صحیح ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سوسال میں بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ پر ایک عرصے تک انگریز مورخوں اور بعد میں خود ہندوستان اور پاکستانیوں نے بہت کچھ کام کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ یورپی مصنفین میں سے اکثر مذہبی، نسلی اور دوسرے تعصبات کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ چنانچہ برصغیر کے دورِ جدید میں فنِ تاریخ کی بنیادیں ایسی روایات پر رکھی گئی ہیں جو کسی طرح قبل اطمینان قرار نہیں دی جا سکتیں۔
معاملہ مگر محض فن تاریخ کی بنیاد کا نہیں رہا۔ معاملہ یہ ہے برطانوی نوآبادیاتی نظام نے اس سماج کی فکری تشکیل میں خود شکستگی کا عنصر داخل کر دیا ہے اور ہم آج تک سفید فام برتری کے اس حیاتیاتی مغالطے سے باہر نہیں نکل پا رہے جو اب خود یورپ میں بھی دم توڑ چکا ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے یہاں کی سلطنتیں سر زمین بے آئین نہیں تھیں۔ یہاں ریاست کا پورا ڈھانچہ اپنے ان سارے لوازمات کے ساتھ موجود تھا جو ریاست کی تشکیل کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔
برصغیر کی مسلم حکومتوں کے قانونی نظام کو سمجھنے کیلئے ہمیں اس فکری تنگنائے سے نکلنا ہو گا، جس میں ہم کامن لاء، کو لے کر پھنسے پڑے ہیں۔ مسلم معاشرے کا اپنا ایک قانون تھا جو یہاں نافذ تھا۔ اس کی شکل بھلے جدید قوانین کی طرح مدون نہ ہو لیکن اس کی موجودگی، اس کی اثر پزیری اور اس کی قوت نافذہ سے انکار ایسا رویہ ہے جس کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔ مثالی یقینا نہیں تھیں لیکن برصغیر میں مسلمانوں کی ان حکومتوں کا قانون شرعی تھا۔ اب اس قانون کا محض اس بات پر ابطال نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی ہیئت نو آبادیاتی مجموعہ ہائے قوانین سے مختلف تھی۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ اسلامی قانون ہے کیا اور اس کا مآخذ کیا ہے۔ اسلامی قانون کے اپنے مآخذ ہیں جن میں قرآن، سنت، اجماع، قیاس اور پھر عرف اور مصلحت شامل ہیں۔ مسائل شرعیہ انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
قرآن تحریری شکل میں ہے۔ احادیث تحریری شکل میں موجود ہیں اور ان پر روایت اور درایت کے اعتبار سے بہت قابل قدر کام ہو چکا ہے۔ اسماء الرجال ہے جس میں کتب سوالات ہیں، کتب طبقات ہیں اور کتب تاریخ ہیں۔ یہ سارا کام غیر معمولی ہے۔ پھر فقہ کی دنیا میں بھی بہت غیرمعمولی کام ہوا ہے۔ اسلام کا تعلق چونکہ فرد کی ذاتی زندگی سے ہی نہیں، نظم اجتماعی سے بھی ہے اس لیے فقہ اسلامی بھی محض عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے معاملات کو موضوع بناتی ہے۔
اسلام کو، جب محض عبادات تک محدود تصور کر لیاجائے اور عملی زندگی اس کے تابع نہ رہے تو پھر یہ غلط فہمی جنم لیتی ہے کہ اسلامی قوانین اور فقہ اسلامی تو محض عبادات کے لیے خاص ہیں اب عملی زندگی کے لیے الگ سے کچھ قوانین درکار ہیں۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے یہاں ایسی کوئی غلط فہمی نہ تھی اور ہی یہاں کے مسلمان اپنی شناخت کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویے کا شکار تھے۔
علم، فکر اور نفسیات کی دنیا میں یہ حادثہ بہت بعد میں رونما ہوا جب برطانوی نو آبادیات میں شرعی قوانین کو مسلمانوں کے چند معاملات تک محدود کرتے ہوئے اجتماعی زندگی سے انہیں نکال دیا گیا اور ایسے لوگوں کی تلاش شروع ہوئی جو " رنگ اور نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں لیکن اپنے ذوق، اپنی فکر، اصولوں اور اپنے فہم کے اعتبار سے انگریز ہوں"۔ جیسے جیسے یہ تلاش کامیاب ہوتی گئی، فکری گرہ سخت ہوتی گئی۔ چنانچہ آج ہم برصغیر کی سلطنتوں کی فقہی دستاویزات کی بات کریں تو اس کی درست تفہیم میں اچھے خاصے معقول لوگوں کو مشکل درپیش ہوتی ہے۔
فقہ کے بارے میں مختلف ادروا میں یہ کوشش ہوتی رہی کہ اسے ریاست کا قانون قرار دے دیا جائے۔ خلیفہ منصور کے بارے میں روایت ہے کہ اس نے امام مالک کی موطا، کو ریاست کا قانون بنانا چاہا لیکن امام مالک نے اسے مناسب نہ سمجھا۔ ہارون الرشید اور خلیفہ مہدی کے بارے میں بھی ایسی ہی روایات ہیں۔ حکمران شاید چاہتے ہوں کہ کسی ایک مذہب کو قانون کا درجہ دے دیں لیکن جید فقہاء یہ سوچ کر اس تصور کی نفی کرتے ہوں کہ یہ فہم دین میں کسی ایک مذہب کو حجت مان کر قانون کا درجہ نہ دیا جائے بلکہ ان آراء کو وقت کے مطابق پرکھ کر کسی ایک رائے کو نافذ کر لیا جائے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے فقہا گزرے ہیں لیکن لیکن ان میں سے جن کی فقہ کو کسی نہ کسی دور میں کسی حاکم نے کسی درجے میں قانون کی حیثیت دے دی وہ زیادہ معروف ہو گئیں۔ جو چار مذاہب اس وقت ہمارے ہاں معروف ہیں یہ سب کسی نہ کسی دور میں کسی درجے میں قانون کی حیثیت میں نافذ رہے۔ یہی معاملہ برصغیر میں بھی تھا۔ حکومتوں کے پاس قرآن، احادیث اور فقہ کی شکل میں قوانین موجود تھے۔ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ یہاں کے حکمرانوں نے فقہ حنفی ہی کو اپنا ریاستی قانون بنایا تا ہم یہ حقیقت ہے کہ قانون سازی کی دنیا میں غالب کردار فقہ حنفی ہی کا رہا۔
یہ گویا دینی احکام کی ایک شرح تھی جسے قانون کا درجہ دیا گیا۔ یعنی ہم اس درجے میں تو نہیں کہہ سکتے کہ حنفی فقہ ہی برصغیر کا قانون تھا لیکن غالب رجحان اسی طرف تھا اور اس سے ہٹ کر بھی جو رائے کبھی اختیار کی جاتی وہ فہم شریعت ہی کے باب میں اختیار کی جاتی۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق چیئرمین آرچی بیلڈ گیلوے کی گواہی ان کی اپنی کتاب میں موجود ہے کہ برصغیر کا سارا ریونیو کا نظام فقہ حنفی کی تعبیر پر کھڑا تھا یعنی شرعی تھا اور با قاعدہ تحریری شکل میں موجود تھا۔ آرچی بیلڈ گیلوے اس بات پر خاصیت برہم دکھائی دیتے ہیں کہ برطانوی مورخین اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے کہ بر صغیر میں صرف ایک ہی قانون صدیوں تک رائج رہا اور وہ اسلامی قانون تھا۔
ان کے خیال میں اگر ہندوستان پر لکھنے والے برطانوی مورخین کو اسلامی قانون کا کچھ علم ہوتا تو ان کا رویہ مختلف ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کے سب محمڈن لاء یعنی اسلامی قانون سے بے خبر اور جاہل تھے۔ یاد رہے کہ یہ رائے میری نہیں یہ برطانیہ کے میجر جنرل کی رائے ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر، ڈپٹی چیئر مین اور چیر مین بھی رہے۔ (جاری ہے)