اگر اسلامی قانون برطانوی قانون کی طرح مدون نہیں تھا تو کیا یہ اس کی خامی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اصول اور قاعدے کے ساتھ پوری فقہ موجود تھی اور اس کا اطلاق قاضی کا فرض تھا۔ یہاں اگر قاضی کے پاس صوابدیدی اختیارات کسی کو " اچھا قانون"نہیں لگتے تو یہ صوابدیدی اختیارات تو انگریزی قانون میں بھی جج کے پاس موجود ہیں اور ان کا دائرہ کار غیر معمولی حد تک وسیع ہے۔
اگر ان اصولوں کا نو آبادیاتی نظام کی طرح سیکشن اور دفعات کی شکل میں نہ ہونا اس قانون کا نقص ہے تو پھر برطانیہ کے پاس تو آج بھی اپنا تحریری آئین نہیں ہے۔ آئین کی اہمیت تو قانون سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کیسی جورسپروڈنس ہے جو بغیر آئین کے برطانیہ کو جمہوریت کی ماں بھی سمجھتی ہے اور ایک نیشن سٹیٹ بھی لیکن اسلامی قوانین کے سارے مآخذ کی محض اس لیے نفی کر دیتی ہے کہ ان کی روشنی میں نو آبادیاتی نظام کی طرح سیکشن اور دفعات کی شکل میں اسے کیوں نہیں لکھا جا سکا۔ اگر مآخذسے استنباط کرتے ہوئے فیصلہ سازی میں یہ امکان موجود ہے کہ مختلف قاضی مختلف معاملات میں مختلف فیصلے دیں گے، تو یہ مسئلہ تو نو آبادیاتی قانون میں بھی موجود ہے جہاں ایک جیسے معاملات میں مختلف فیصلے موجود ہیں۔
اگر معاملہ یہ ہے کہ اس میں تقلید کا عنصر موجود ہے تو کامن لاء کا Stare Decisisکیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام ماتحت عدالتوں کے لیے حرف آخر ہوتا ہے۔ اسلامی قانون میں تو اس بات کی وسیع تر گنجائش موجود ہے کہ قوانین کے مآخذ سے رجوع کرتے ہوئے نئے دور کے نئے چیلنج کے مطابق قاضی فیصلہ کر لے لیکن کامن لاء تو آپ کو Precedent سے ادھر ادھر ہونے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ کامن لاء کا تو تعارف ہی یہ ہے کہ یہ وہ قانون ہے جو ججوں کے فیصلوں پر مشتل ہے یعنی Judge made law ہے۔ بلیکس لاء ڈکشنری کے مطابق تو کامن لاء کی بنیاد کسی آئین یا قانونی دستاویز پر نہیں بلکہ ان فیصلوں پر ہے جو مختلف جج مختلف اوقات میں کرتے رہے۔
اگر سلطان کا فرمان جاری کرنا قانون کے تقاضوں سے فروتر سمجھا جاتا تھا تو یہ فرمان تو برطانوی بادشاہ سلامت بھی جاری کرتے تھے۔ نو آبادیاتی قانون یعنی کامن لاء کی بھی تو یہی تعریف ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو برطانیہ کے تمام بادشاہوں کی عدالتوں میں کامن، تھا۔ اگر قاضی کا انتخاب مسلمان سلطان کرتا تھا تو برصغیر میں کامن لاء کے تحت قائم عدالتوں کے ججوں کا انتخاب بھی برطانوی بادشاہ ہی کیا کرتا تھا۔ برطانوی بادشاہ کو تو چھوڑ دیں آج کے پارلیمانی جمہوری دور میں کیا صدر پاکستان کے پاس صدارتی فرمان جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اگر سزا کے حتمی تعین کا سوال ہے کہ قاضی جب فقہی اصول کی بنیاد پر سزا سناتا تھا تو ایک ہی جیسے دو جرائم میں دو مختلف قاضی دو مختلف سزائیں سنا سکتے تھے جو مناسب نہیں تھا تو کیا کامن لاء میں بھی ججوں کو یہ اختیار نہیں اور کیا کامن لاء میں بھی سزائوں کا تعین اسی طرح نہیں کیا جاتا کہ سزا اتنے سال قید تک ہو سکتی ہے یا سزا عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے؟
وقت کے تقاضوں کے مطابق قوانین کا ڈھانچہ بدلتا رہتا ہے۔ ہمارے پاس مغلیہ دور میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب ریاست نے باقاعدہ سیکشن یعنی دفعات کی شکل میں قانون بنا کر عمال حکومت کو بھیجے کہ ان معاملات میں یہ حکم ہے اور یہ سزا ہے۔ بدلتے وقت کے انہی تقاضوں کے تحت سلطنت دہلی سے سلطنت مغلیہ تک میں حکمران اور چیف جسٹس اپنی نگرانی اور اپنی ہدایات پر فتاوی کے مجموعے مرتب کراتے رہے۔ یہ اسلامی مآخذ کی روشنی میں اپنے اپنے دور کی قانون سازی ہی تو تھی۔
کیا ان سب قوانین کی نفی صرف اس بنیاد پر کی جا سکتی ہے کہ ان کا نام کامن لاء کے قانونی مجموعوں کی طرح مدون کیوں نہیں تھا اور انہیں فتاوی کیوں کہا جاتا تھا؟ بہتری کی گنجائش یقینا ہو سکتی ہے(اور وہ کامن لاء میں تو بہت زیادہ ہے) لیکن کامن لاء کو حرف آخر قرار دے دینا اور صدیوں رائج رہنے والے اسلامی قوانین کو قوانین ہی تسلیم نہ کرنا ایک ایسا رویہ ہے جو علم کی دنیا میں نا معتبر ہے۔
برطانوی نو آبادیاتی قانون سے پہلے برصغیر کے قانون کے ایک مختصر جائزے کے بعد اب دوسرا سوال برصغیر میں مسلمان حکومتوں کے عدالتی نظام اور اس کی قوت نافذہ کا ہے۔ برصغیر کی تاریخ کا ایک جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خاندان غلاماں کا دور حکومت ہو یا خلجی، تغلق اورلودھی حکمرانوں کا، شیر شاہ سوری کا ہو یا پھر مغلوں کا، ہر دور میں قانون اور عدالت بھی موجود تھی اور ادارے اور قوت نافذہ بھی۔ خاندان غلامان سے لودھی حکومت تک چیف جسٹس کو میر عدل، کہا جاتا تھا اور نیچے قاضی القضاء اور قاضی حضرات کی عدالتیں ہوتی تھیں۔ شاہی عدالت سلطان کی ہوتی تھی۔
شیر شاہ سوری کے دور میں ڈھانچہ قدرے تبدیل ہو ا اور سلطان کی عدالت کے بعد فوجداری اور دیوانی مقدمات کی عدالت الگ الگ کر دی گئی۔ دیوانی کی سب سے بڑی عدالت منصف منصفاں، کی تھی، اسے دیوانی مقدمات کا چیف جسٹس کہا جا سکتا ہے۔ فوجداری مقدمات کی سب سے بڑی عدالت کے جج کو شق دار، شق داراں، کہا جا تا تھا۔ شرعی امور کے منصف کو قاضی کہاجاتا تھا۔ سیاستہ کے معاملات کو پھر دو حصوں میں بد ل دیا گیا۔ سیاسۃ کے دیوانی مقدمات کے ججز کو منصف، کہا جاتا تھا اور فوجداری کے ججز کو شق دار، کہا جاتا تھا۔
مغل دور میں سب سے بڑی عدالت بادشاہ کی تھی۔ اسے دیوان مظالم، اور دیوان عدالت، کہا جاتا تھا۔ یہاں مقدمے کی سماعت کے دوران قاضی، مفتی، کوتوال، داروغہ، محتسب، مدعی سب موجود ہوتے تھے۔ جب اس عدالت میں اپیل کی سماعت ہوتی تھی تو بادشاہ اکیلا یہ معاملہ نہیں سنتا تھا بلکہ اس کے ساتھ قاضی القضاء اور اس کی عدالت کے قاضی بھی موجود ہوتے تھے اور یہ گویا ایک بنچ کی شکل میں سماعت کیجاتی تھی۔ دارالحکومت میں تین عدالتیں ہوتی تھیں۔ ایک مقامی قاضی کی، ایک قاضی القضاء کی اور ایک سلطان کی عدالت یعنی دیوان المظالم۔
یہی ڈھانچہ پھر نیچے صوبوں میں تھا۔ صوبائی گورنر کی بھی عدالت تھی۔ یہ صوبے کی اورجنل اور اپیل کورٹ تھی۔ اسے عدالت ناظم صوبہ کہا جاتا تھا۔ اس سے نیچے پھر ایک قاضی صوبہ کی عدالت تھی۔ جسے عدالت قاضی صوبہ کہا جاتا تھا۔ پھر دیوان صوبہ کی عدالت تھی، یہ ریونیو مقدمات کی کورٹ آف اپیل بھی تھی۔ اس کے بعد ضلعی عدالت تھی جسے قاضی سرکار کہا جاتا تھا۔
اس سے نیچے قاضی پرگنہ کی عدالت ہوتی تھی۔ اس کے بعد پنچایت آتی تھی۔ یہ نظام نہ تھا تو کیا تھا؟