ورلڈ کپ کی ٹیمیں تو بھارت سے روانہ ہو چکیں۔ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم البتہ بھارت پہنچ چکی ہے۔ سوال یہ ہے کیا ایف اے ٹی ایف کی ٹیم بھارت کے معاملات بھی اسی طرح دیکھے گی جیسے اس نے پاکستان کے معاملات دیکھے یا بھارت کے ساتھ اسی طرح ترجیحی بنیادوں پر معاملہ ہوگا جیسے اسرائیل کے ساتھ ہوتا آیا ہے؟
اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا انٹر نیشنل لا کی دفعات، سامنے جب اسرائیل ہو تو یہ سب قوانین و ضوابط اپنے معانی کھو دیتے ہیں اور بین الاقوامی برادری زبان حال سے یہ اقرار کر رہی ہوتی ہے کہ بھلے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ریاستیں برابر ہیں لیکن عملی حقیقت وہی آرول کے اینمل فارم والی ہے کہ اسرائیل کچھ زیادہ ہی برابر ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اب کیا بھارت پر ایف اے ٹی ایف کے ضابطوں کا اطلاق ہو پائے گا یا جنوبی ایشیا میں ایک اورا سرائیل کھڑا کیا جا رہا ہے جو عالمی ضابطوں سے بالاتر ہے؟
بھارت کا معاملہ ایف اے ٹی ایف کا امتحان ہے۔ یہ طے کرے گاکہ ایف اے ٹی ایف کی کوئی عملی افادیت ہے یا یہ ایک طرح سے بھارت کا طفیلی ادارہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے بارے میں یہ سوال بلاوجہ پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ جب ایف اے ٹی ایف پاکستان کے معاملات دیکھ رہی تھی تو بھارتی وزیرخارجہ سبرامینیم جے شنکر نے کہا تھا کہ بھارت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں سے نکلنے نہ پائے۔ پاکستان کا نام تو بعد میں گرے لسٹ سے نکل ہی گیا لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ ایف اے ٹی ایف اپنے دائرہ عمل میں کس حد تک خود مختار ہے اور کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ بھارت حکومت ایک بار پھر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کے خوف ناک معاملات پر، پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پہلے ہی یہ تاثر بہت مضبوط ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا اس میں میرٹ پر معاملات نہیں دیکھے گئے بلکہ یہ خالصتا سیاسی محرکات تھے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔ اب اگر ایف اے ٹی ایف بھارت کے معاملات بھی اسی تحرک کے ساتھ اور انہی اصولوں پر نہیں دیکھتا جن پر اس نے پاکستا ن کے معاملات دیکھے تو اس سے ایف اے ٹی ایف کے بارے میں بہت سارے سوالات جنم لیں گے۔
بھارت کے معاملات انتہائی سنگین ہیں۔ سنٹرل بیورو آف انٹیلی جینس کے مطابق بھارت میں بلیک منی کا حجم 25 لاکھ کروڑ ہے۔ یہ 500ارب ڈالر بنتی ہے۔ سنٹرل بیورو آف انٹیلی جینس کے مطابق یہ رقم زیادہ ہے کہ ا سے بھارت اپنے ددو سال کا ٹیکس فری بجٹ تیار کرسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے اعدادو شمار البتہ اس سے بھی سنگین صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بھارت میں بلیک منی کا حجم 2 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ کے مطابق بھارت میں بلیک منی کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر ہے۔ جس روز کسی بین الاقوامی ادارے نے بھارت کے معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا، اس روز معلوم ہوگا اس بلیک منی کا حقیقی حجم کتنا ہے اور اس کے زور پر دنیا میں کہاں کہاں فتنہ انگیزی پیدا کی جاتی رہی۔ کل بھوشن نیٹ ورک سے لے کر کینڈا میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ تک، کیا معلوم کیسی کیسی کہانیاں سامنے آئیں۔
بھارت کا معاملہ حیران کن ہے۔ پاکستان کے بعد اب اس کی کوشش ہے کہ ایف اے ٹی ایف کینیڈا کے خلاف کارروائئی کرے لیکن خود اس کا اپنا جو حال ہے کیا اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟ پاکستان پر ایف ا ے ٹی ایف نے جو شرائط عائد کی تھیں پاکستان نے سب پوری کر دی تھیں پھر بھی ایک عرصے تک پاکستان کو سیاسی وجوہات دبائو میں رکھا گیا۔ یہ وہی وجوہات تھیں جن کی جانب بھارتی وزیر خارجہ نے اشارہ کیا کہ ایسا بھارت کی وجہ سے ہوا تھا اور بھارت نے کوشش کی تھی کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکلنے نہ پائے۔ بھارت کا اپنا معاملہ یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گئے ایک یا دو نہیں، تین سو سے زیاد سوالات کا ابھی اس نے جواب دیناہے۔ یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے صرف 27 سوالات پوچھے تھے۔ جب کہ بھارت سے پوچھے گئے سوالات کی تعداد 330 ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے مالی معاملات کتنے مشکوک ہیں۔
بی جے پی کے سیاسی کردار منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، ان کے ہمدرد کاروباری حلقوں کو کھلی چھوٹ ہے۔ ممبئی ویسے ہی جوئے اور مالی کرپشن کا گڑھ ہے۔ یہ سارا کارٹل ہے جو سنگھ پریوار کی نگرانی میں چلایا جا رہا ہے۔ اس مالی واردات نے بھارت کے اندر تو جو مسائل پیدا کیے ہوں گے سو کیے ہی ہوں گے، زیادہ سنگین معاملہ یہ ہے کہ اس سے خطے میں دہشت گردی کی مالی سرپرستی کی گئی ہے اور یہ معاملہ ایسانہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔
باقی سارے معاملات کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف اروند کجریوال کے اس الزام کی تحقیقات کر لی جائیں کہ مودی کے فرنٹ مین کے طور پر گوتم ادانی نامی ارب پتی کا کیا کردار رہا ہے ا ور اس کی بلیک منی نیٹ ورک کا حجم کیا ہے تو شاید صرف ایک انڈسٹریلیسٹ سے جڑے مالی معاملات کا حجم جنوبی ایشیا کے کئی ممالک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہو۔
بھارت کی یہ بلیک مارکیٹ خطے کے لیے کس قدر تباہ کن ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔ بھارت کے اندر بھی جب ایف اے ٹی ایف نے ان امور کی جانب توجہ دلائی تو حقیقی رخ پر کام کرنے کی بجائے اور اس نیٹ ورک سے جڑے اصل کرداروں پر گرفت کی بجائے عام اداروں کو نشانے پر لے لیا گیا۔ بالخصوص ان اداروں پر جو سنگھ پریوار کی آنکھ میں کھٹکتے تھے۔
یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کو کہنا پڑا کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کے ضابطوں کی آڑ میں مودی کے مخالف طبقات کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل بھارت کے سربراہ آکر پٹیل کا کہنا تھا کہ بھارت ان قوانین کی آڑ میں صرف ناقدین کا ناطقہ بند کر رہا ہے۔ اور یہ ان قوانین کا بد ترین استعمال ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی بھارت کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو دیکھنا چاہیے کہ ان قوانین کا بھارت کس طرح غلط استعمال کر رہا ہے۔
بھارت کی بلیک منی اور بلیک مارکیٹ حکومتی سرپرستی میں چلنے کے الزامات بہت سنگین اور بہت عام ہیں۔ پھر یہ کہ ان کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اب یہ کام ایف اے ٹی ایف کا ہے کہ وہ کسی قسم کے دبائو میں آئے بغیر ان معاملات کو دیکھے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچائے۔ یہ معاملات صرف پاکستان یا صرف جنوبی ایشیاء کے لیے خطرہ نہیں ہیں یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور کینیڈا اس خطرے کی دستک سن چکا ہے۔