بی آر ٹی کے طلسم ہوش ربا کی حقیقت کیا ہے؟ یہ محض ستائیس کلومیٹر کی ایک سڑک ہے یا یہ پرستانوں کو جاتی کوئی کہکشاں ہے جہاں کسی آدم زاد کا گزر نہیں اور پورے چاند کی راتوں میں جہاں پری بدیع الجمال اپنی سہیلیوں کے ساتھ اترتی ہے، وادی پشاور کے اس حیرت کدے کو دیکھ کر قہقہے لگاتی ہے اور پھر ملکہ پربت کے اس پار سیف الملوک کو خبر دینے چلی جاتی ہے کہ اے آدم زاد!برفزاروں سے اتر کر ذرا اس حیرت کدے کو تو دیکھ، بائولا ہو جائے گا؟اب تو اس پری وش کا ذکر چھڑتا ہے توسلیم کوثر یاد آتے ہیں :
جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
یہاں جو کچھ نظر آتا ہے تصویروں کی حد تک ہے
پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بتا رہا ہے کہ بی آر ٹی حضرتِ عشق کی درگاہ کا وہ چراغ ہے جو اپنے ہی مزار پر ہنس رہا ہے۔ خوش گمانیوں کی ساری وارفتگی اپنی جگہ، کارکردگی کا آزار مگر ایسا ہے کہ استاد ذوق یاد آتے ہیں :" گر یہ ستم ہے روز تو اک روز ہم نہیں "۔ بی آر ٹی محض ایک منصوبہ نہ تھا، یہ تبدیلی کا اولین نقش تھا۔ منصوبہ سازوں کو علم ہونا چاہیے تھا اگر اسی کی رنگ پھیکے نکلے توتبدیلی کی ساری قوس قزح پہلی برسات میں ہی بہہ جائے گی۔ ان کی بے نیازی مگر آج بھی نوح ناروی جیسی ہے: "کوئی نہیں پچھتانے والا، مر جائے مر جانے والا"۔ پچھتاوا تو خیر دور زمانوں کا تکلف ٹھہرا، آفرین ہے ان کی نازکی طبع کو، یہ تو پل بھر کو بد مزہ تک نہیں ہوتے۔
اپوزیشن کے اعتراضات کو بے شک چولہے میں ڈال دیجیے لیکن عدالت نے جو کچھ کہا اسے تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل بھی معاملہ عدالت کے سامنے گیا تھا اور عدالت نے کہا تھا کہ نیب اس معاملے کی تحقیقات کرے کیونکہ اس منصوبے کا کام قریبا پچاس فیصد بڑھ چکا ہے۔ کے پی کے حکومت نے بجائے اس کے کہ خود کو احتساب کے لیے پیش کرے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ اب ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا ہے اور کے پی کے حکومت نے خود کو تحقیقات کے لیے پیش کرنے کی بجائے ایک بار پھر وہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپیل کریں گے۔ دن میں بیس مرتبہ اخلاقیات کے وعظ دیے جاتے ہیں اور چوبیس مرتبہ کرپشن کے خاتمے کا عزم کیا جاتا ہے لیکن عزم مصمم ہے کہ تحقیقات نہیں ہونے دیں گے۔ ہونی مگر ہو کر رہتی ہے چنانچہ چیئر مین نیب نے ابھی کل ہی کہہ دیا ہے بی آر ٹی پر ریفرنس تیار ہے۔
عدالت کے تازہ فیصلے میں فیصلہ سازوں کے لیے Visionless کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یعنی بصیرت سے عاری۔ آدمی اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز نہ ہو چکا ہو تو یہ معمولی بات نہیں۔ اتنا کچھ سننے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت خود کو احتساب کے لیے کیوں پیش نہیں کر رہی؟ کرپشن اگر نہیں ہوئی تو اسے ڈر کس بات کا ہے؟ اور اگر ہوئی ہے تو کیا ان حیلوں اور بہانوں سے احتساب سے بچا جا سکتا ہے؟
دل چسپ حقیقت یہ ہے کے پی حکومت نے اپنے طور پر بھی تحقیقات کرائی تھیں اور جب اس کے نتائج آئے تو رپورٹ ہی کو گناہ کی طرح چھپا لیا گیا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ " کچھ لوگوں " نے اس پراجیکٹ میں 7 بلین کی کرپشن کی۔ بجائے اس کے وزیر اعلیٰ ان " کچھ لوگوں " کو شناخت کرتے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی اس سارے معاملے کو دبا دیا گیا۔ پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے فرما دیا میں نے تو رپورٹ ہی نہیں پڑھی۔ آخری اطلاعات کے مطابق جولائی 2018ء میں بی آر ٹی کو مکمل ہونا تھا، لیکن آج تک کسی کو خبر نہیں یہ عجوبہ عالم کب مکمل ہو پائے گا۔ اب تو کوئی تاریخ دینے کی زحمت بھی نہیں کرتا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ منصوبے سے پہلے کوئی مفصل فزیبلٹی رپورٹ تک تیار نہیں کی گئی۔ صرف ایک شہر کے منصوبے کے لیے اتنا بھاری قرض لے لیا گیا۔ تخمینہ لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ آپ بد انتظامی اور شاہ خرچی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ فی کلومیٹراڑھائی ارب روپے لاگت آ رہی ہے۔
جی ہاں اڑھائی ارب روپے فی کلومیٹر۔ یہ بات بھی عدالت بتا رہی ہے کہ " نان پراجیکٹ" سٹاف کے لیے شاہانہ تنخواہیں مقرر کی گئی۔ یہ بھی جان لیجیے کہ یہ کون صاحب تھے جو یہ شاہانہ تنخواہیں وصول فرماتے رہے حالانکہ پراجیکٹ سے ان کا تعلق ہی نہیں تھا۔ عدالت کا کہنا ہے یہ حضرات ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور وزیر اعلی صاحب کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ کیا ہم یہ سوال اٹھانے کی گستاخی کر سکتے ہیں کہ ان افسران کو جو مال غنیمت عطا ہوا وہ کس کی آشیر باد سے عطا ہوا اور اس میں سے کس کس نے کتنا حصہ وصول فرمایا؟ نیز یہ کہ وزیر اعلی کی اپنی رپورٹ میں 7 ارب کی مبینہ کرپشن میں جن " کچھ لوگوں " کا ذکر کیا گیا تھا کیا یہ دونوں افسران بھی ان " کچھ لوگوں " میں شامل ہیں؟عدالتی فیصلے میں ایک اور پہلو بھی بے نقاب ہوا۔ کہا گیا کنسلٹنٹس کو بھی بھاری معاوضے دیے گئے اور ان کنسلٹنٹس نے حکومت کو گمراہ کیا۔
سوال یہ ہے گمراہ کرنے والے ان کنسلٹنٹس کا انتخاب کس نے کیا تھا؟اتفاق دیکھیے، بی آر ٹی کے کنسلٹنٹس بھی غیر مقامی تھے اور انہیں ڈیڑھ ارب روپے عطا فرمائے گئے۔ کے پی کے کی بیوروکریسی کے بعض واقفان حال کا دعوی ہے کہ یہ سب انہی کنسلٹنٹس کا کیا دھرا ہے۔ کیا ہر کام اسی لیے تو الٹا نہیں ہو رہا کہ این جی اوز اور غیر ملکی اداروں کے اس "لیپ ٹاپ" گروہ سے فکری رہنمائی حاصل کی جاتی ہے جسے مقامی مسائل اور حقیقتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا اور جس کی دانشوری مبلغ اتنی سی ہوتی ہے کہ وہ کسی اور ملک کا پراجیکٹ " کاپی پیسٹ" کر کے وزیر اعظم کو ایک عدد اچھی بریفنگ شستہ انگریزی میں دے کر متاثر کرنے کی متاثر کن صلاحیت رکھتے ہیں؟
تحقیقات کب تک روکی جا سکیں گی؟ جب وزیر اعلی کی اپنی ٹیم نے رپورٹ دی کہ " کچھ لوگوں " نے 7 ارب کی کرپشن کی ہے تو وزیر اعلی نے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا لیکن بھول گئے۔ نیب کو معاملہ سونپا گیا تو اپیل کر دی۔ اب عدالت نے ایف آئی سے رپورٹ مانگی ہے تو ایک بار پھر اپیل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن کب تک؟ ایک دن تو سب کچھ سامنے آئے گا۔ نیب نے تو اپنی ابتدائی رپورٹ تیار کر کے جمع بھی کروا دی ہے جسے ہائی کورٹ نے سیل کیا ہوا ہے کہ چلیں پراجیکٹ کے دوران اسے سامنے نہ لایا جائے تا کہ پراجیکٹ کہیں مزید تاخیر کا شکار نہ ہو جائے۔ لیکن اس نے ایک دن تو سامنے آنا ہے۔ پھر پوچھا جائے گا جنہیں پنجاب نے بلیک لسٹ کیا ہوا تھا انہیں بی آر ٹی سے کیوں منسلک کیا گیا؟جواب سوچ رکھیے صاحب۔ سوال بہت سارے ہیں۔