زمین کی کھدائی میں بدھا کا مسجمہ نکلا، لوگوں نے توڑ دیا، ویڈیو بن گئی، شور مچ گیا، پولیس نے ان لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ اہل فکر و دانش نے حکومت کی بروقت کارروائی پر دادو تحسین فرما دی۔ میرے پیش نظر مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس گرفتاری کا کوئی جواز ہے؟ یہ سوال قانونی بھی ہے، سماجی بھی اور معاشرتی بھی۔ فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچ کر رائے قائم کرنے سے بہتر ہو گا آپ ان سوالات پر ایک نگاہ ڈال لیں۔
ملزمان کو جس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اس کا نام Antiquity Act ہے۔ یہ 1976ء میں بنا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کبھی آپ نے اس قانون کا نام سنا ہے؟ کیا مجسمہ توڑنے والے افراد کے بارے میں کسی بھی درجے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس قانون سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا وہ جو کام کر رہے ہیں وہ غیر قانونی ہے اور اسے جرم قرار دیا گیا ہے؟
اس کا جواب دیا جائے گا کہ قانون کی دنیا کا طے شدہ اصول ہے کہ " قانون سے لا علمی کوئی عذر نہیں ہے"۔ Ignorance of law is no excuse۔ یعنی قانون جب بن گیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ ملک کے تمام شہریوں کو اس کا علم ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی میں یہ عذر قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم قانون سے لا علم تھا۔ یہ برطانوی جورسپروڈنس کا قاعدہ ہے۔ جسے ہم نے آنکھیں کان بند کر کے اپنے ملک میں نافذ فرما دیا ہے اور ایک لطیف مگر سنگین نکتہ ہم نظر انداز کر چکے ہیں۔
برطانیہ میں قانون انگریزی میں ہے اور وہاں کے عوام کی زبان بھی انگریزی ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی کا عالم شرمناک حد تک گرا ہوا ہے۔ یہاں خواندہ وہ ہوتا ہے جو اپنا نام لکھ سکے۔ انگریزی دانی کے کمالات کا عالم یہ ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد انگریزی میں دو فقرے لکھیں تو گد گدا دیتے ہیں۔ لیکن قانون ہم نے انگریزی میں لکھ رکھا ہے۔ انگریزی میں لکھے پیچیدہ قانون کی بابت ہمارا اصرار ہے کہ اس سے لا علمی کوئی عذر نہیں ہے۔ نیم خواندہ معاشرے میں پرائی زبان میں ایک قانون مسلط کر کے ہمارے داروغے برطانوی قاعدے سے قوم کی کمر لال اور ہری کیے بیٹھے ہیں کہ اے زندہ اور پائندہ قوم تمہیں انگریزی آتی ہو یا نہ آتی ہو تمہیں قانون کا پتا ہونا چاہیے۔
آپ کہیں گے اب پوری قوم کو بٹھا کر قانون تو نہیں پڑھایا جا سکتا۔ ایسا نہیں ہے۔ قانون کے کچھ پہلو ایسے ہیں جن کی آگہی ہر انسان کی جبلت میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہر آدمی کو معلوم ہے قتل کرنا، کسی کو ضرب لگانا، کسی کا مال ہڑپ کرنا وغیرہ ناجائز اور غلط اقدام ہے۔ لیکن کچھ قانونی معاملات بہر حال آگہی مانگتے ہیں۔ اس آگہی کے بغیر تعزیر کا کوڑا برسا دینا قانون کی نظر میں بھلے معتبر ہو، معقولیت کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
قانون کی دنیا میں Due care کا لفظ بڑی معنویت رکھتا ہے۔ دیکھا جائے تو جن کی زمین سے کھدائی کے دوران بدھا کا مجسمہ نکلا انہوں نے اسے توڑنے سے پہلے Due care کے تقاضے پورے کیے۔ وہ اپنے مولوی صاحب کے پاس گئے کہ اس کا کیا کریں۔ انہیں کہا گیا توڑ دو اور انہوں نے توڑ دیا۔ کیا ریاست نے کسی بھی سطح پر ایسا کوئی ادارہ یا دفتر بنا رکھا ہے جہاں ایسی صورت حال میں لوگ جا کر رہنمائی کے طالب ہوں کہ یہ ایک معاملہ پیدا ہوا ہے، اس غیر ملکی انگریزی زبان میں تم نے کوئی قانون اس بابت طے کر رکھا ہو تو ہمیں بھی بتا دو۔ اقوال زریں آپ جتنے مرضی سنا لیں، ایک نیم خواندہ سماج کی زمینی حقیقتیں ان اقوال زریں سے تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
عوامی سطح پر قانون سے آگہی کا کیا بندوبست ہے؟ آپ سے تو اپنا آئین بھی اردو میں نہ لکھا جا سکا۔ عدالتوں میں فاضل وکیل آج بھی انگریزی میں بات کرنا بلندی درجات کا باعث سمجھتے ہیں اور نیم خواندہ خواتین و حضرات ایک کونے میں کھڑے ان کی انگریزیاں سن سن کر نہال ہو رہے ہوتے اور انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ان کی قسمت کے فیصلے کن دلائل کی بنیاد پر ہونے جا رہے ہیں۔
سماج کے تہذیبی پہلو کی یہاں کتنی تربیت کی گئی؟ ریاست کی پالیسی کیا ہے؟ افغان جہاد میں ایک نسل ایک تعبیر دین کے ساتھ پروان چڑھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بیانیہ اس سے مختلف رہا۔ اس میں ایک نیم خواندہ آدمی سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ان دیکھے قوانین کے مطابق روز مرہ کے معاملات طے کرے گا؟ ویڈیو نہ بنتی تو پولیس نے بھی اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لینا تھا۔ ویڈیو بن گئی، شور مچ گیا تو قانون بھی حرکت میں آ گیا۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او صاحب سے بھلا پوچھ کر تو دیکھیے " نوادرات ایکٹ" کے تحت نوادرات کی تعریف کیاہو گی؟ ایس ایچ او کو چھوڑیے، یہ سوال پارلیمان کے باہر کھڑے ہو کر کوئی صاحب اراکین پارلیمان سے پوچھ لیں کہ حضرت نوادرات کسے کہتے ہیں۔ جواب سے آپ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
دور دراز علاقے میں تو نوادرات ایکٹ کے تحت گرفتاری ہو گئی کیا کری کی بارہ سو سال پرانی مسجد کے وہ نقش و نگار نوادرات میں نہیں آتے تھے جنہیں سی ڈی اے کے بابو لوگوں کی تکلیف دہ بے حسی اور بد ذوقی نے مٹا دیا؟ کیا اسلام آباد میں کری کے اس قدیم مندر کا شمار نوادرات میں نہیں ہوتا جس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ دی گئی ہے؟
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قانون کے نفاذ سے پہلے سماج کی تربیت کا مرحلہ آتا ہے۔ سماج نیم خواندہ ہے، تعلیم برائے فروخت ہے، تربیت کا کوئی ادارہ نہیں رہا، ریاستی سطح پر مشاورت کا کوئی دفتر نہیں ہے۔ اور اوپر سے اس سماج کی کمر پر آپ نے انگریزی کے پیچیدہ قوانین ڈال رکھے ہیں۔ یہ افلاطونی اس سے سوا ہے کہ : قانون سے لا علمی کوئی عذر نہیں۔ تو جناب سچ سچ بتائیے، ہے کوئی ہم سا؟