صبح دم چائے پینے لگا تو علی امین گنڈا پور کی یاد آ گئی۔ میں نے چینی والے چمچ میں سے گن کر 9 دانے نکال کر واپس بوتل میں ڈال دیے اور باقی کی چمچ چائے کی پیالی میں انڈیل دی۔ آپ یقین کریں پورے 9 دانے چینی کے کم ہونے کے باوجود چائے میں پہلے جیسی مٹھاس اور ذائقہ تھا۔ میرا تو وہیں نچنے نوں دل کرنے لگا کہ اپنے وزیر با تدبیر کی برکت سے میں نے صرف ایک کپ چائے میں پورے نو دانے چینی کی بچت بھی کر لی اور اس کے باوجود میری چائے کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوا۔ بغض میں جل کر کوئلہ ہونے والوں کی بات الگ ہے ورنہ یہی ایک نشانی کافی ہے کہ بھٹکے ہوئوں کو اس مبارک دور کی برکتوں پر قائل کر لے۔
ایک دن میں میں تین سے چار کپ چائے اور تین کپ قہوے کے پیتا ہوں۔ یہ ملا کر سات کپ بن جاتے ہیں۔ گویاہر روز اب مجھے 63 دانے چینی کی بچت ہو گی۔ ہر ماہ میں چینی کے1890 دانے بچا پائوں گا۔ ایک مالی سال کی بچت 22 ہزار9 سو95 دانے چینی ہو گی۔ اگر ایک آدمی ہر سال 22 ہزار9 سو95 دانے چینی بچائے گا تو ذرا تصور کیجیے پورے ملک کی بچت کا حجم کیا ہو گا۔
ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ ان میں سے اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ آدھی آبادی چائے پیتی ہی نہیں پھر بھی گیارہ کروڑ لوگ اگر روزانہ پچاس دانے چینی کی بھی بچت کریں تو یہ پانچ ارب دانے چینی روزانہ کی بچت ہو گی۔ اگر ہر روز کی بچت پانچ ارب دانے ہے تو سالانہ بچت کا حجم اٹھارہ سو پچاسی ارب ہو گا۔ لوگوں کو وزیران با تدبیر کی باتوں پر ہنسنے کی عادت پڑ چکی ہے ورنہ اگر وہ بغض سے نکل کر سوچیں تو وزیر محترم کی دانش کے قائل ہو جائیں کہ انہوں نے کھڑے کھڑے اس قوم کے اٹھارہ سو پچاسی ارب دانے چینی بچا لی۔
روٹی کا معاملہ تو اس سے بھی سوا ہے۔ چائے تو کچھ لوگ پیتے ہیں کچھ نہیں پیتے، روٹی تو ہر کوئی کھاتا ہے۔ اب اگر بائیس کروڑ لوگ روز تین لقمے بچا لیں تو روز کی بچت 66 ارب لقمے سے۔ بیچ میں سے شیر خوار بچوں اور مریضوں کو الگ کر لیں تب بھی قریب چالیس ارب لقمے روانہ بچائے جا سکتے ہیں۔ چالیس ارب لقمے اگر ہر روز بچائے جائیں تو سال کی بچت کتنی ہو گی؟ میرا کیلکولیٹر تو جواب دے چکا ہے۔ اسد عمر صاحب اگر اپنے کیلکولیٹر کو زحمت دیں تو اس قوم کو بتایا جا سکتا ہے کہ کیسا عظیم الشان معاشی منصوبہ ہے جو وزیر موصوف نے پیش کیا ہے۔
ایسا نہیں کہ وزیر محترم آپ کو صرف بچتوں کے پیچھے لگا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس چینی کا ایک پورا متبادل ہے اور ابھی ارتقاء کے تاریخی فلسفے کے تحت آپ کو دھیرے دھیرے چینی سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ کچھ سال بعد جب حکومت کے لگائے بیری کے درختوں پر شہد کی مکھیاں شہد بنائیں گی اور یہ شہد ملک میں سستے داموں دستیاب ہو گا اور چینی کی کسی کو ضرورت ہی نہیں رہے گی، تو اس وقت تک آپ تزکیہ نفس کے مراحل سے گر کر کندن بن چکے ہوں تا کہ اس شہد سے آپ کے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔
میری ناقص رائے میں اس معاشی حکیمانہ نسخے کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے تا کہ آئندہ نسلوں کو بھی معلوم ہو سکے کہ اس زندہ اور پائندہ قوم نے کیسے کیسے رجل رشید ایوانوں میں پہنچانے تھے جو اپنی بصیرت سے سماج کی تیرگی کو منور کرتے رہے۔ بچپن میں کسی ڈائجسٹ میں پڑا تھا کہ ایک سردار جی کافی دیر چائے میں خالی چمچ گھماتے رہے پھر نعرہ مار کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ لو بھائی سردار جی نے نئی تحقیق فرمائی جے۔ اوہ ایہہ ہے کہ اگر چینی ڈالے بغیر ایک گھنٹہ بھی چمچ ہلائی جائے تو چائے میٹھی نہیں ہوتی۔ سردار جی کی اس عظیم تحقیق کے اب ہمارے سردار جی نے یہ تحقیق فرمائی ہے کہ نو دانے چینی نہ بھی ڈالی جائے تب بھی چائے میٹھی رہتی ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ نوبل کمیٹی کو ایک خط لکھا جائے کہ اس گنڈاپوری تحقیق پر ایک عدد نوبل انعام دیا جائے۔ اور اگر یہ کم نصیب نوبل کمیٹی یہ درخواست قبول نہ کرے تو صدر محترم سے صدارتی آرڈی ننس جاری کروا دیا جائے کہ اس سال کا طب، سائنس اور معیشت کا نوبل انعام وزیر محترم کو دیا جاتا ہے۔
ملک میں بھی ہنگامی بنیادوں پر اس فارمولے پر عمل کیا جانا چاہیے۔ ماحولیات کی وزارت کو پہلی فرصت میں عوام میں اپیل کرنی چاہیے کہ دن میں دو بار سانس روکنے کی مشق کی جائے۔ ہر آدمی دن میں دو بار سانس روکے گا تو اس کے دو فائدے ہونگے۔ ایک تو آکسیجن کا استعمال کم ہو گا۔ دوسرا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہو جائے گا۔ یعنی ہر رو ز88 کروڑ مرتبہ آکسیجن انسانی پھیپھڑوں میں نہیں جائے گی اورہر روز اتنی ہی کاربن پھیپھڑوں سے نکل کر ماحول میں شامل نہیں ہو گی۔ آپ اندازہ کرنے کی کوشش کیجیے اس سے ماحولیات پر کتنا فرق پڑیگا۔ ماحول کو اتنی آکسیجن مل جانا اور اتنی کاربن سے ماحول کا محفوظ رہنا یہ کم ا زکم ایک ملین درختوں کا متبادل ہو گا۔
کبھی کبھی تو شک پڑتا ہے یہ حکومت ملامتی سیاست، کی سیاست ہے ورنہ کوئی آدمی ہوش و حواس میں ایسے بیانات دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جیسے بیانات اس حکومت کے وزراء اہتمام سے جاری فرماتے ہیں۔ معلوم نہیں ان کی ترجیح کیا ہے اور یہ چاہتے کیا ہیں۔ کوئی امریکہ جا کر وہاں کی غربت پر ٹارزن کی طرح رجز پڑھ رہا ہوتا ہے۔ کوئی سفارتی اور مالی آداب اور تقاضے پامال کرتے ہوئے سعودی سفیر کو خط لکھ رہا ہوتا ہے کہ میرے حلقے میں فلاں فلاں کام کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے تو سخیا اللہ کی راہ پر مردان کیلئے کچھ دیتا جا۔ کوئی اداروں کو آگ لگانے کی بات کرتا ہے۔ کسی کے خیال میں کروڑوں نوکریاں تو دی جا چکیں۔ کوئی پریشان پھرتا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی لوگوں نے پٹرول مہنگا ہونے پر اتنا واویلا کیوں مچا رکھا ہے۔ ایک صاحب ارشاد فرماتے ہیں ہم احتساب کو چھوڑ کر گڈ گورننس پر توجہ نہیں دے سکتے۔ کسی کی لب کو جنبش ہوتی ہے اور پی آئی اے کی کمر دہری ہو جاتی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے انہیں ہو کیا گیا ہے۔
ہر دور اقتدار میں ایک دو دانے ایسے نکل آتے ہیں لیکن یہ پہلی حکومت ہے جس میں لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند۔ حکومت مختلف مزاج لوگوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے۔ کچھ تند خو مگر کچھ دھیمے بھی۔ کچھ سخت زبان میں ردیف قافیے ملانے والے مگر ساتھ کچھ شائستہ اطوار مرہم رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ ساری کی ساری حکومت زبان بکف جنگجوئوں پر مشتمل ہے۔ جو ہر گلی کوچے میں، ہر موضوع پر، ہر ایک کو، ہر وقت دعوت مبارزت دیتے پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ چائے میں چینی کی جگہ تمباکو ڈالتے ہیں۔