آٹے اور چینی پر تحقیقاتی رپورٹ کو بالعموم دو انداز سے دیکھا گیا۔ ایک زاویہ نظر یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ہی حکومت میں یہ رپورٹ جاری کر کے ایک غیر معمولی کام کیا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ یہ تھا کہ جہانگیر ترین ہی نہیں خود عمران خان بھی کٹہرے میں کھڑے ہیں اور حکومت کا اخلاقی وجود برف کے کسی باٹ کی طرح دھوپ میں رکھا ہے۔ ابتدائی صف بندی میں میرے اکثر دوست پہلی اور میں دوسری صف میں کھڑا تھا۔ لیکن اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دو آراء فروعی اور غیر اہم ہیں اور معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین اور اہم ہے۔ اس معاملے کی سنگینی کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے اسے سیاسی وابستگی اور پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر صرف ایک پاکستانی کے طور پر دیکھا جائے۔ رپورٹ کیا کہتی ہے؟ پہلے یہ دیکھتے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے چند اہم نکات یہ ہیں۔ پہلی بات یہ کی گئی کہ چینی کی ایکسپورٹ کا فیصلہ بلاجواز تھا۔ رپورٹ کے الفاظ ہیں :The export of sugar was not justified.۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ کسی حکومت نے سبسڈی نہیں دی اور پنجاب حکومت بھی اس وقت سبسڈی دے رہی تھی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھ رہی تھی۔ تیسری بات یہ کی گئی کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ چینی کی برآمد پر بروقت پابندی عائد کرنے میں ناکام رہا۔
گویا معاملہ یہ نہیں تھا کہ جہانگیر ترین اور دیگر کاروباری اداروں نے اپنے طور پر کوئی غیر قانونی کام کیا بلکہ معاملہ یہ تھا کہ حکومت نے ایک پالیسی بنائی جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ چند افراد اور کاروباری اداروں کو بہت فائدہ ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ پالیسی کیسے بنی؟ دستیاب اطلاعات یہ ہیں کہ چینی کو ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کسی ایک وزیر، کسی ایک وزارت یا حتی کہ اکیلے وزیر اعظم کا بھی نہیں تھا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ دسمبر 2019 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی سیکرٹری برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے بتایا تھا کہ آئندہ سال چینی کی پیدواوار کم ہو گی لیکن اس کے باوجود اس کی اجازت دے دی گئی۔ گویا یہ معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں زیر بحث آیا تھا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں بھی اٹھایا گیا اور وفاقی کابینہ نے بھی اس کی اجازت دی۔
اس سیاق و سباق کے ساتھ آئیے اب اس مسئلے کی طرف جو حقیقی مسئلہ ہے اور جسے نظر انداز کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی سنگین نکل سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس رپورٹ کے پاکستان کے کاروباری طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ پاکستان کی معاشی حالت کے پیش نظر عمران خان جیسے آدمی کو یہ پالیسی لانا پڑی ہے کہ اگر کاروباری طبقہ کنسٹرکشن میں سرمایہ لگائے گا تو اس سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی اور یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ یہ فیصلہ عمران خان کے احتساب اور شفافیت کے تصور سے متصادم ہے لیکن یہ درست فیصلہ ہے۔ ملک میں پیسہ باہر نکلے گا اور کوئی معاشی سرگرمی ہو گی تو روز گار پیدا ہو گا۔ محض احتساب کا کوڑا برساتے رہنے سے تو معیشت بہتر ہونے سے رہی۔ خوف اور سرمایہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔
فرض کریں آپ سرمایہ کار ہیں۔ فرض کریں آپ نے عمران خان کی تازہ پیش کش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے پاکستان میں کنسٹرکشن کے کاروبار میں لگانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا اس رپورٹ کے بعد آپ اب سرمایہ کاری کی ہمت کر سکیں گے۔ جہاں وفاقی کابینہ کے فیصلے کو ایف آئی اے کا ایک افسر Not justified کہہ دیتا ہے وہاں وفاقی کابینہ کے کسی فیصلے اور کسی ریلیف کا کیا اعتبار؟ آج حکومت کی تازہ پیشکش کا فائدہ اٹھا کر کوئی اربوں روپے اس کاروبار میں لگا دے تو کیا ضمانت ہے کل واجد ضیاء صاحب جیسا کوئی اور افسر ایک رپورٹ پیش کر دے اور لکھ دے کہ وفاقی حکومت کا کنسٹرکشن کے کاروبار کو دیا جانے والا ریلیف بلاجواز تھا اس لیے سارے کاروباری لوگ لائن میں لگ جائیں۔ قانون کو تو ایک طرف رکھ دیجیے، سوال یہ ہے اس ملک میں وفاقی کابینہ کے فیصلے کی اوقات کیا ہے؟ بس یہ کہ ایف آئی اے کا افسر اسے Not justified کا اعزاز عطا فرما دے اور ساتھ ہی کاروباری لوگوں کی لسٹ بھی جاری کر دی جائے۔ پھر میڈیا پر ان کاروباری افراد کی ایسی تیسی کر دی جائے اور وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم خاموش تماشا ئی بنے رہیں۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہ ہو کہ فیصلہ کیا تھا تو اب پوری جرات کے ساتھ سامنے آ کر اس کا دفاع بھی کریں۔ یہ فیصلہ وفاقی کابینہ نے کیا اور ایک ماتحت افسر اسے Not justified قرار دے رہا ہے۔ کیا وفاقی کابینہ کا یہ فرض نہیں کہ یہ فیصلہ اگر نیک نیتی کی بنیاد پر تھا تو اس فیصلے کی " اونرشپ" لے۔ اور اگر یہ بد نیتی کی بنیاد پر تھا اور یہ واقعی Not justified ہے تو پھر کابینہ کی تو اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس صورت میں کابینہ کو استعفی دینا چاہیے۔ یہ کیا معاملہ ہے کہ کابینہ تو دہی کے ساتھ بیٹھی کلچہ کھا رہی ہے اور کاروباری افراد کا آملیٹ بنایا جا رہا ہے۔ کیا کاروباری طبقے کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وطن عزیز میں کاروبار کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟
عمران خان نے کنسٹرکشن کے حوالے سے جو فیصلہ کیا بہت اچھا تھا۔ تیسرے ہی دن یہ رپورٹ آگئی سوال یہ ہے اب کنسٹرکشن کے شعبہ میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ جہاں ملک ریاض کے پیسوں کا آج تک کوئی نہ بتا رہا ہو کہاں گئے اور کدھر گئے، جہاں منی لانڈرنگ کے مقدموں کی کوئی خبر نہ ہو، جہاں نیب کے مجرم ڈھول بجا کر گرفتار کیے جاتے ہوں اور شہنائی بجاتے باہر آ جاتے ہوں، جہاں احتساب کا شور ہو مگر قومی خزانے میں ایک روپیہ جمع نہ ہوا ہو وہاں وزیر اعظم کو زمینی حقائق سمجھ آ ہی جائیں اور کنسٹرکشن کے حوالے سے ایک نرم پالیسی دے دی جائے تو تیسرے روز رپورٹ آ جاتی ہے اور کابینہ وضاحت پیش کرنے کی بجائے قرنطینہ میں بیٹھ جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، سرمایہ دار اب یہاں بھاگا آئے گا کہ سرمایہ کری کرے؟