چڑیا کا عالمی دن منایا جا چکا اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ ننھا پرندہ اب نظر کیوں نہیں آتا؟ یہ کہاں چلا گیا؟ ایک زمانہ تھا ہر سو یہ چڑیاں چہچہاتی پھرتی تھیں اور اللہ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے تھے۔ آج یہ وقت آن پہنچا کہ دنیا اس ننھی مخلوق کا عالمی دن منا رہی ہے لیکن یہ چڑیا اب کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ پرندہ ہمارے گھر وں کا حصہ ہوتا تھا ہم نے اس کی قدر نہیں کی، آج یہ نایاب ہوتا جا رہا ہے اور ہم بیٹھے اس کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ بھی شاید وہی ہے کہ آنکھ تب کھلتی ہے جب بند ہونے لگتی ہے۔ اب ا کر ہمیں چڑیوں کی یادآ رہی ہے جب ہم چڑیوں سے محروم ہو چکے۔
چڑیوں کے ساتھ اپنا رشتہ بہت پرانا ہے۔ گائوں میں اپنے گھر میں کینو، امرود اور سنبل کے درخت تھے۔ وہیں چارپائیوں پر ہم سوتے تھے۔ صبح دم نانا بالوں میں ہاتھ پھیرتے اور لوری دے کر جگاتے: اٹھ نام اللہ دا بول چڑیاں بول گئیاں۔ آنکھ کھلتی تو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور نانا کی لوری ایک ساتھ سماعتوں میں رس گھولتیں۔ وقت کا موسم یوں بدلا کہ اب نہ نانا ہیں نہ چڑیاں ہیں۔ نہ کوئی لوری ہے نہ کسی چڑیا کی چوں چوں کی موسیقی۔
میں ماں جی (نانی اماں) کے پاس پیڑی پر بیٹھ کر ناشتہ کرتا تو پھر مرغیوں کو ڈربے سے نکالتا۔ آٹے کے گولے بنا کر مرغیوں کے آگے ڈالتا تو چڑیاں اچک لیتیں اور غصے سے بپھری مرغیاں ان چڑیوں کے پیچھے بھاگتی رہ جاتیں۔ تب چڑیوں کا گھر کے رزق میں حصہ ہوتا تھا اور صبح دم انہیں کچھ نہ کچھ ڈالا جاتا تھا۔ ماں جی کھانا پکا رہی ہوتیں اور چڑیاں دائیں بائیں سے مال غنیمت پر یلغار کیے رہتی ہیں۔ ایک آتی پھر دوسری آتی، پھر تیسری چوتھی پانچویں، پل بھر میں پورا مجمع لگ جاتا۔ جب ان کی شرارتیں حد سے بڑھ جاتیں تو ماں جی چھڑی اٹھاتیں اور پھر ساری چڑیاں پھُر سے اڑ جاتیں۔ چڑیوں کا پھُر سے اڑ جانا محض محاورہ نہیں، یہ ایک پورا طلسم ہے۔ اس کیفیت کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے بھلے وقتوں میں چڑیوں کے ڈار اترتے اوور پھر اڑتے دیکھے ہوں۔ یک پورا ڈار جب اچانک سے اڑتا ہے تو پھُررررر کی آواز آتی ہے۔ یہ آواز سنے بی اب سالوں بیت چکے۔
سردیوں کی چھٹیوں میں جب شریفہ جاتے تو کینو کے باغات سیڑھوں، سے بھرے پڑے ہوتے تھے۔ پھوپھی غلام عائشہ غلام عائشہ پکی چودھرانی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر دم ایک لاٹھی ہوتی تھی اور ان کے سامنے بڑوں بڑوں کی جان جاتی تھی، البتہ چڑیوں سے ان کی بھی دوستی تھی۔ ان کے گھر میں بھی چڑیوں کا رزق موجود رہتا تھا۔
کافی سال قبل گائوں گیا تو راستے میں دو چڑیاں مری ہوئی ملیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کسان اس ڈر سے کہ چڑیا ں ان کے بیج نہ کھا جائیں زمین میں زہر پھینک دیتے ہیں، چڑیاں زہر کھا کر مر جاتی ہیں۔ ننھی سی چڑیا آخر کسان کی کتنی فصل کھا جاتی ہوگی؟ بڑا غصہ آیا لیکن پھر اس پر شرمندگی غالب آ گئی۔ یاد آیایہی پگڈنڈی تھی جہاں میں نے اپنے چھوٹے بھائی قاسم گوندل کے ساتھ تلیروں اور شارکوں کے ڈار پر فائر کیا تھا اور اٹھارہ مار گرائے تھے، کچھ شارکیں تھیں، کچھ تلیر۔ عبد الرسول گوندل ہمارے قبیلے کا سراغرسان تھا۔ اس نے بتایا فلاں جھنڈ میں جنگلی کبوتر پائے جاتے ہیں اور شام ڈھلنے کے بعد جنگلی کبوتر فلاں درخت پر اترتے ہیں۔ ایک شام اتر رہی تھی تو ہم اس درخت کے قریب کھڑے تھے۔ جنگلی کبوتروں کا ایک غول درختوں پر آ کر اترا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ صرف ندامت کی داستان ہے۔
جب کسان ہل چلاتے تو ان کے ہل کے پیچھے پیچھے پرندوں کے غول اترتے۔ دیسی کیکرکے جھنڈ ہوا کرتے تھے جہاں جنگلی کبوتروں کا بسیرا ہوتا تھا۔ نہروں اور کھالوں کے کنارے شارکوں کے ہجوم ہوتے تھے۔ زمینوں کو جب پانی دیا جاتا تو پرندوں کا ڈھیر لگ جاتا تھا۔ سارا گائوں ہی اپنے خاندان کا تھا۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ ٹیوب ویل کے ساتھ مولا بخش گوندل مرحوم کی نرسری تھی۔ آم اور جامن کے درختوں سے بھرایہ ایک گوشہ تھا جو انہوں نے محبت سے آباد کیا تھا۔ روش روش کیلے لگے تھے۔ گائوں کا سب سے پیارا گوشہ یہی تھا۔ جنت کا ٹکڑاتھا۔ پورے گائوں میں جل مرغی کا شکار صرف یہاں سے ملتا تھا۔
بہار رتوں میں یہاں تتلیوں کا بسیرا ہوتا تھا۔ میری نانی اماں کا گائوں وجھوکہ تھا۔ سیم کے ساتھ ساتھ چند کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے، سارے رستے فاختہ کی مدھ بھری آواز سنائی دیتی۔ ان کے گھر میں ایک دھریک تھی۔ اس دھریک پر کوئل بولا کرتی تھی۔ کبھی راستے میں شام ہو جاتی تو سیم کے اندر جگنو ہی جگنو نظر آتے۔۔ پرندے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ فاختہ اور کوئل کی آواز سنے اب عرصہ ہوگیاہے۔ میں ایک پرائیویٹ سوسائٹی میں پہاڑ کے دامن میں گھر بنا رہا ہوں۔ ساتھ جنگل ہے سامنے پہاڑ ہے۔ ہر گھر کے سامنے پودے لگے ہیں لیکن چڑیا کہیں نظر نہیں آتی۔
بیج کے ساتھ زہر ڈال کر ہم نے پرندوں کی نسلیں معدوم کر دیں۔ جگنو جو ہماری دیہی تہذیب کا ایک بنیادی رنگ ہوتے تھے اسی زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے۔ درختوں کے کٹائو سے ویسے ہی پرندے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہاڑی علاقے کے جنگلات میں پرندوں کی جو چند اقسام بچ گئی ہیں وہ بھی ہماری جہالت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ لوگ پہاڑوں پر جاتے ہیں اور شاپر پھینک کر آ جاتے ہیں۔ جس پرندے نے شاپر کا کوئی ٹکرا کھا لیا وہ مر جاتا ہے۔
اب چڑیا اور فاختہ جیسے پرندے بھی کم کم نظر آتے ہیں۔ طوطے دیکھے تو اب عرصہ ہوگیا۔ تیتر اب صرف پنجروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ مرغابیوں کی کتنی اقسام معدوم ہو چکیں۔ یہی عالم رہا تو پرندے صرف کتابوں میں رہ جائیں گے اور ہم کتاب کھول کر بچوں کو دکھایا کریں گے کہ چڑیا، فاختہ، تیتر اور طوطے کیسے ہوتے تھے۔
جو کسر رہ گئی تھی وہ موبائل کمپنیوں کے ٹاورز نے پوری کر دی ہے۔ ان سے خارج ہوتی تابکاری سے ننھے پرندوں کے دل پھٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ابھی ایسی کوئی رسم نہیں ہے کہ اس سطح پر تحقیق کی جائے البتہ برطانیہ کے اعدادوشمار یہ ہیں کہ موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے صرف آٹھ سالوں میں چڑیوں کی تعداد میں 75 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں بھی موبائل کا استعمال بڑھ رہا ہے اور کمپنیاں اس معاملے پر توجہ دینے کو بالکل تیار نہیں کہ موبائل ٹاورز سے خارج ہونے والی الیکٹرو میگنیٹک تابکاری کو کیسے کم سے کم سطح پر لایا جائے۔ جس دنیا میں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہ ہو اور فلسطین میں مقتل سے دنیا لااتعلق ہوو جائے وہاں چڑیوں کو کون روئے؟
ترقی یافتہ دنیا کا یہ کارپوریٹ فیشن ہے، پہلے بربادی پھیلاتی ہے پھر دن مناتی ہے۔