پاکستان کی مسیحی برادری کرسمس کی خوشیاں منا رہی ہے اور چونکہ رسم ِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہے اس لیے اہل اقتدار بھی رسمی سے ان بیانات کے ذ ریعے ان کی خوشیوں میں شریک ہیں۔ یہ وہ بیانات ہوتے ہیں جن کا حکمرانوں کو علم ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور جو ایک معمول کی طرح مختلف مواقع پر بیوروکریسی کے بابو لوگ خود ہی جاری کرتے رہتے ہیں۔ ان بے روح بیانات کو اس وقت تک معنویت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہم اجتماعی طور پر اپنے معاشرتی رویوں پر نظر ِ ثانی نہیں کرتے۔
ہر معاشرے کی ساخت کے دو بنیادی حوالے ہوتے ہیں۔ ایک مذہبی اور دوسرا سماجی۔ آئین پاکستان ان دونوں حوالوں میں ایک شاندار توازن پیدا کرتے ہوئے شہریت کے بنیادی آداب کھول کر بیان کر رہ ہے۔ چنانچہ آئین کے مطابق پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہے۔ یہ معاشرے کی ساخت کا مذہبی حوالہ ہے جو آئین کے دیباچے اور اس کے مختلف آرٹیکلز میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
آئین میں ہی اس ساخت کا دوسرا حوالہ بھی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 25میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ آرٹیکل 21 کے تحت کسی ایک مذہب کے ماننے والے پر کسی دوسرے مذہب کی ترویج وغیرہ کے لیے کوئی ٹیکس عائد نہیں ہو سکتا۔ آرٹیکل 22 میں قرار دیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں کسی طالب علم کو کسی ایسی مذہبی تقریب، سرگرمی یا عبادت میں شرکت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے مذہب سے متعلق نہ ہو۔
یہ توازن دو اصول طے کر رہاہے۔ اول: پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ دوم: دیگر مذاہب کے لوگوں پر کوئی قدغن نہیں اور بطور ریاست کے شہری وہ برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ یعنی پاکستان کی اسلامی ریاست کے اندر غیر مسلموں کی حیثیت ذمی کی نہیں ہے، معاہد کی ہے اور وہ برابر کے شہری ہیں۔ ان کی جان کی حرمت، مال کی حرمت اور بطور انسان دیگر حقوق کی اہمیت آئین کی رو سے وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔
جب آئین میں طے کیے گئے اس توازن کی روشنی میں، میرا جیسا طالب علم اپنے سماج کو دیکھتا ہے تو پھر بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سادہ سا یہ سوال کہ جب تمام شہری برابر ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ سینٹری ورکر کے لیے ملازمتوں کے اشتہار آتے ہیں تو اہلیت کے خانے میں مسیحی برادری سے تعلق کی شرط لکھی ہوتی ہے۔ اگر چہ اب اس رسم کی بڑی حد تک حوصلہ شکنی ہو چکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی پشاور میونسپل کارپوریشن کے قریب ایک ہزار سینٹری ورکرز میں سے 90 فیصد مسیحی برادری کے ہیں۔ لاہور میونسپل کارپوریشن کے قریب آٹھ ہزار میں سے چھ ہزار ورکرز مسیحی برادری سے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد کا یہ عالم ہے کہ یہاں ڈیڑھ ہزار کے قریب سینٹری ورکرز ہیں اور سب کے سب مسیحی برادری سے ہیں۔ سواال یہ ہے کہ کیوں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ لاشعوری طور پران پر زندگی کے دیگر شعبہ جات کے دروازے بند کر دیے گئے ہوں اورکسی کو احساس تک نہ ہو؟ اسلام آباد میں جس طرح سے یہ لوگ مارگلہ سے اترتی ندیوں کے کنارے جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں، ایف سیون میں یا جی سکس اور سیون میں یا ایف سکس میں، کبھی جا کر دیکھیے۔ ان کی حالت دیکھ کر خوف آتا ہے کہ انسانوں کی بستی ایسی بھی ہو سکتی ہے۔ اقوال زریں سنا سنا کر اور ٹویٹ فرما فرما کر خود کو خود ہی سرخرو کر لینا ایک الگ بات ہے ورنہ ہماری حکومتیں اور ہمارا معاشرہ کہیں نہ کہیں بہت بڑی غفلت کر چکا ہے۔
ایک دن مسیحی برادری کے ساتھ کھانا کھا کر یا چند رسمی سے بیانات دے کر آئین کے آرٹیکل 25 کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ یہ تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست حقیقت میں ایسا ماحول بنا کر دکھائے جہاں پاکستان کے تمام شہریوں کو واقعی ایسا ماحول ملے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہر شعبہ زندگی میں کردار ادا کر سکیں۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک سماجی سطح پر ایک ہموار فکری منظر نامہ تشکیل نہ دیا جائے۔
مغربی معاشروں میں بھی مذہبی شناخت، ظاہر ہے کہ ہوتی ہے۔ اکثریت، وہاں کے مسیحی شہریوں کی ہے۔ لیکن بطور شہری کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ ان معاشروں میں جب کسی کو شہریت دے دی جاتی ہے تو اس کی حیثیت اب برابر کے شہری ہوتی ہیں۔ کوئی بھی شہری کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو سکتا ہے لیکن بطور شہری ان معاشروں میں اس کے حقوق برابر اور مسلمہ ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ شہری کی اصطلاح کی بجائے اقلیت کی اصطلاح بھی مغربی معاشروں میں استعمال نہیں ہوتی۔ یہ بھارت اور پاکستان جیسے معاشرے ہیں جہاں اقلیت رہتی ہے۔ مغرب میں ان کا تعارف صرف ایک شہری کا ہوتا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ یہ Social Integration پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتی؟ سماجی سطح پر ایک ایسا ماحول کیوں نہیں بن سکتا جہاں سب شہری بطور شہری بروئے کار آئیں۔ اقلیت یا اکثریت کے طور پر نہیں۔
اسلام آباد میں اس ہفتے میں اسلامی نظریاتی کونسل میں دو اہم تقاریب ہوئیں۔ ایک کی میزبانی خود نظریاتی کونسل نے کی اور دوسری کی میزبانی ادارہ برائے علم و تحقیق نے کی۔ میں فلو اور کھانسی کی وجہ سے دونوں میں شریک نہ ہو سکا۔ لیکن دونوں مجالس میں جو امور زیر بحث آئے، وہ خاصے کی چیز تھے۔ یہ میرے جیسے طالب علم کے لیے پریشانی کی بات ہے کہ سماج کے اتنے اہم موضوعات پر ملک کے اہل علم کی اس فکری نشست کا ہمارے میڈیا میں کہیں ذکر نہ تھا۔ اہل فکر کی یہ طویل نشستیں گویا اس قابل بھی نہ تھیں کہ عابد شیر علی اور شیخ رشید جیسے لوگوں کے بیانات کے دسویں حصے کی کوریج بھی انہیں نصیب ہو پاتی۔
جو سنجیدہ موضوعات سماج کی تہذیب کرتے ہیں ان سے اگر ہمارے میڈیا کی بے ز اری کا عالم یہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو یہی میڈیا درد و غم کی روبکاریں کیوں بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سماج اگر سنجیدگی کی بجائے سطحیت اور ہیجان کی دلدل میں اتر رہا ہے تو یہ بے سبب نہیں۔ یہ ہماری افتاد طبع کا نامہ اعمال ہے۔
ہر شام ٹی سکرینوں پر مجادلے کی محفلیں سجتی ہیں، ذرا تصور کریں اگر انہیں محفلوں کو مکالمے کی مجلس بنا دیا جائے اور " سینئر تجزیہ کاروں " سے ڈفلی بجوانے کی بجائے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو مدعو کر کے سنجیدہ گفتگو کی جائے تو اس سماج کے سوچنے کا اندا زکس حد تک تبدیل ہو جائے اور مزاج کی کتنی تہذیب ہو جائے۔ لیکن اگر گفتگو میں ہی ترجیح ہیجان اور چیخ و پکار ہے تو سماج کا رویہ کیسے شائستہ اور بالغ نظر ہو سکتا ہے۔