کیا ہماری انتظامی صلاحیت بس یہی رہ گئی ہے کہ کوئی گروہ احتجاج کرنے نکلے تو شہر کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے؟ کیا احتجاجی ہجوم سے نبٹنے کا کوئی جدید، مہذب اور قابل عمل طریقہ نہیں ہے جو ہماری انتظامیہ کو سکھایا جائے اور فیصلہ سازوں کے گوش گزار کیا جائے؟
تحریک لبیک کے لوگ ابھی لاہور میں ہی تھے کہ جڑواں شہروں میں کنٹینر لگا دیے گئے۔ مری روڈ جڑواں شہروں کی لائف لائن ہے۔ اسے بند کر دیا جائے تو سمجھیے نظام ز ندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ شہر کے اچھے سکول اس کے آس پاس ہیں۔ کاروباری مراکز اسی پر واقع ہیں۔ راولپندی کو اسلام آباد سے ملانے والی یہ اہم شاہراہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ خود راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں باہمی ربط کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کیا یہ عقلمندی ہے کہ آئے روز اس سڑک کو بند کر دیا جائے؟
ضلعی انتظامیہ کے کمالات بھی حیران کن ہیں۔ جب بھی ایسے کوئی احتجاج ہوتا ہے یا اس کا امکان پیدا ہوتا ہے، یہ پہلے اقدام کے طور پر مری روڈ ہی کو نہیں بلکہ اس سے ملنے والی دیگر سڑکوں کو بھی کنٹینر لگا کر بند کر دیتے ہیں۔ راستے بند ہوتے ہیں مگر تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلے رہتے ہیں۔ مزید اہتمام یہ ہوتا ہے کہ رات ہی سب کو واٹس ایپ پر ہدایات جاری کر دی جاتی ہیں کہ صبح حاضری ضروری ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ اساتذہ، طلباء اور سرکاری ملازمین کیا کوئی اڑن طشتری لے کر سکول، کالج اور دفاتر جایا کریں۔
بچوں کو سکول ڈراپ کرنے صبح گھر سے نکلا تو چوراہے پر کنٹینر لگے ہوئے تھے۔ متبادل راستے پر مڑا تو ٹریفک جام تھا۔ پورے تین گھنٹے ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کے بعد واپس گھر پہنچ پایا۔ راستے میں جو مناظر دیکھے وہ انتہائی تکلیف دہ تھے۔ بچے رکشوں اور ویگنوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مرد و خواتین سب کا برا حال تھا۔ نہ آگے جانے کا راستہ تھا نہ واپسی کا۔ گھنٹوں لوگ سڑکوں پر دھکے کھاتے رہے۔ اور بیوروکریسی اور فیصلہ ساز مزے سے ٹوئٹر پر داد عیش دیتے رہے۔
ہجوم سے نبٹنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ اور پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اس کی تربیت کی جائے تو وہ ان معاملات کو احسن طریقے سے دیکھ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر سادہ سے فارمولے کام میں لائے جاتے ہیں۔ کئی سال تک ہماری مبلغ دانش یہ ہوتی تھی کہ کہیں کوئی واقعہ ہو جائے تو سب سے پہلے ڈبل سواری پر پابندی لگا دو۔ اب ڈبل سواری کی بجائے کنٹینرز ہمارے ہاتھ آ گئے ہیں۔ ہماری ضلعی انتظامیہ اور فیصلہ سازوں کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ احتجاجی قافلے ابھی لاہور سے نکلے بھی نہیں ہوتے اور ہم راولپنڈی کی سڑکیں کنٹینرزلگا کربند کر دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں کنٹینر معاشی سرگرمی کی ایک علامت ہے۔ ہمارے ہاں اسے خوف اور دہشت کی نشانی بنا دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ عام حالات میں بھی اسلام آباد کی سڑکوں اور شاہراہوں پر کنٹینر پڑے رہتے ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ریڈ زون میں جہاں ڈپلومیٹک انکلیو ہے اور دنیا بھر کا سفارتی عملہ رہائش پزیر ہے وہاں ہم نے مستقل بنیادوں پر کنٹینر لگا رکھے ہیں تاکہ سفارتی عملے کو روز یہ بات یاد دلائی جاتی رہے کہ وطن عزیز میں امن عامہ کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔
کنونشن سنٹر کے پہلو میں سرینا ہوٹل کے سامنے رکھے تین کنٹینر کو تو اسلام آباد پولیس کے آفیشل نشان اور رنگوں سے سجا دیا گیا ہے۔ گویا یہ پولیس کی ملکیت ہیں۔ چک شہزاد کے پولیس سٹیشن کے باہر بھی مستققل بنیادوں پر کنٹینر رکھے ہیں۔ یہ کنٹینر ظاہر ہے کہ محکمہ داخلہ نے تو تیار کروا کر پولیس کے حوالے نہیں کیے ہوں گے۔ امکان یہی ہے کہ یہ کسی کم نصیب تاجر سے ضبط کیے گئے ہوں گیا ور پھر کسی نے واپس کرنے کا تردد نہیں کیا ہو گا۔ کوئی رکن پارلیمان اگر پارلیمان میں وزیر داخلہ سے پوچھ لے کہ وہ ایوان کو بتائیں یہ کنٹینر کب خریدے گئے، کس سے خریدے گئے اور کتنے میں خریدے گئے؟ نیز یہ کہ خریدے گئے ہیں تو کیا دوسرے فریق کو ادائیگی بھی کی گئی ہے یا صرف کاغذوں میں خریدے گئے ہیں، تب شاید حقیقت سامنے آ سکے۔
احتجاج کے دوران جب سکیورٹی کی حالت مخدوش ہو تو کاروباری طبقے سے کنٹینر ضبط کر کے سڑکوں پر کھڑے کر دینے کا کیا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے؟ کیا پولیس کسی کی مرضی کے بغیر اس کی پراپرٹی قبضے میں لے سکتی ہے؟ کیا ان کنٹینرز کا متاثرہ فریق کو کرایہ ادا کیا جاتا ہے؟ کیا ریاستی ادارے کو یہ زیب دیتا ہے کہ لوگوں کی پراپرٹی کو یوں ناجائز طور پر تصرف میں لائے؟
اب تو ایک نیا رجحان آ گیا ہے۔ اس دفعہ راولپنڈی میں صرف کنٹینرز ہی نہیں ہیوی ٹرک بھی کھڑے کیے گئے تھے۔ سوال وہی ہے کیا ان ٹرکوں کے مالکان کی اجازت سے یہ یہاں کھڑے کیے گئے تھے؟ کیا کوئی ٹرک مالک اتنا احمق ہو سکتا ہے کہ اپنی اتنی قیمتی مالیت کی گاڑی راستے بند کرنے کے لیے کھڑی کرنے کا خطرہ مول لے جب کہ اسے معلوم ہو احتجاجی ہجوم اسے جلا بھی سکتا ہے؟
فرض کریں ایسا کوئی ٹرک جلا دیا جائے یا اسے جزوی طور پر نقصان پہنچے تو کیا حکومت کے پاس متاثرہ مالک کو ادائیگی کا کوئی طریقہ کار اور میکنزم موجود ہے؟ کیا راستے بند کرنے کے لیے سڑکوں پر کھڑا کرنے سے قبل ان ٹرکوں کی انشورنس کرائی جاتی ہے؟ کیا پولیس کا ان ٹرکوں کے مالکان کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ موجود ہوتا ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ ٹرک مالک کی مرضی سے لیے جاتے ہیں یا چھین کر زبردستی سے کھڑے کیے جاتے ہیں؟ مرضی سے لیے جاتے ہیں تو ان کا کرایہ کیا ہوتا ہے؟ اور زبردستی لیے جاتے ہیں تو کیا ریاستی قانون اور آئین پولیس کو اس بات کی اجازت دیتا ہے؟
نیز یہ کہ جو بھی لوگ مالکان سے ان کے کنٹینرز اور ٹرک زبردستی لے کر سڑکوں پر کھڑے کر دیتے ہیں کیا وہ تعزیرات پاکستان کے تحت جرم کے مرتکب نہیں ہوتے؟ کیا ذمہ داران کے خلاف اس جرم پر قانون حرکت میں نہیں آنا چاہیے۔
قانون کی حکمرانی کھیل نہیں ہے۔ یہ ایک کوہ کنی ہے۔ اس تصور سے اگر حکومت اور اس کے ادارے مخلص ہیں تو اس کا آغاز ان کی ذات سے ہوتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے ہی لوگوں سے ان کی گاڑیاں اور ٹرک بردستی چھین کر اپنے تئیں امن عامہ کو یقینی بنا رہے ہوتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے وہ اصل میں جرم کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور کوئی جرم محض اس لیے گوارا نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا ارتکاب کرنے والے خود قانون کے محافظ ہیں۔
کنٹینر کیوں لگائے جاتے ہیں اور راستے کیوں بند کیے جاتے ہیں؟ کیا ہجوم کو کنٹرول کرنے کا ہمارے پاس کوئی اور طریقہ موجود نہیں؟ کیا یہ ایک مناسب حرکت ہے کہ حکومت ہی اپنے شہریوں کے راستے بند کر دے؟ نیز یہ کنٹینر زکن اصول اور شرائط کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں؟۔۔ اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں فرماتا مگر یاد رکھیے کہ ان سوالات کی نوعیت بہت سنگین ہے۔