قوم سے خطاب ضرور فرمائیے لیکن پہلے کچھ اصلاح احوال۔ جناب وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ کے ذریعے قوم کو بتایا ہے کہ کورنا وائرس کے تدارک کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وہ ذاتی طور پر نگرانی فرما رہے ہیں اور بہت جلد وہ قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ خطاب لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے تو وہ ضرور فرمائیں لیکن جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ معاملات خطاب سے زیادہ اصلاح احوال اور ادارہ جاتی تحرک کے متقاضی ہیں۔
اس ملک میں کسی نے کرونا کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھا تو وہ سندھ حکومت تھی۔ باقیوں نے سمجھا نہیں، انہیں شاید سمجھایا گیا ہے کہ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ اب ارشاد ہو رہا ہے میں خود اس مسئلے کو دیکھوں گا۔ اس "میں" کے آزار سے جو بچ گیا، وہ نجات پا گیا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے ہیں اور انتظامی تحرک ہے جو چیزوں کی بہتری میں کردار ادا کرتا ہے۔ کروڑوں کے ملک میں "میں" کچھ نہیں ہوتا۔ یہ " میں " ہی تھا جس نے کہا تھا اوپر اچھا آدمی آ جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا اور اب خلق خدا کو کہا جاتا ہے "میں" بے چارہ اکیلا کیا کرے اس کی تو ٹیم ہی اچھی نہیں۔"میں" سے نہ معیشت کی گتھی سلجھ سکی نہ "میں " اچھی طرز حکمرانی کے خیال کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو پائی۔ آخری تجزیے میں " میں "افتاد طبع کا نام ہے جو اقوال زریں سنانے پر بہت قدرت رکھتی ہے۔ زندگی کی مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ اس کے الجھے مسائل تقاریر فرمانے سے حل نہیں ہوتے، تدبیر مانگتے ہیں۔ تدبیر کہاں ہے؟
طاہرہ اورنگزیب صاحبہ کل بتا رہی تھیں مریم اورنگزیب پاکستان لوٹیں تو ایئر پورٹ پر ان کا کسی نے کوئی معائنہ کوئی سکریننگ نہیں کی۔ ایسی ہی گواہی نور الہدی شاہ صاحبہ کی ہے۔ سندھ ہیلتھ بورڈ کے سربراہ، سابق سینیٹر برادرم ڈاکٹر کریم خواجہ نے اگلے روز بتایا اسلام آباد سے کراچی پہنچے والے جس لڑکے میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے وہ چین سے اسلام آباد آیا تھا اور اگر اسلام آباد ایئر پورٹ پر اس کی سکریننگ ہو گئی ہوتی تو یہ تشخیص وہی ہو جاتی۔ اب معلوم نہیں وہ اسلام آباد سے کراچی تک کتنے لوگوں سے مل چکا ہو گا۔ ایک انتہائی معتبر گواہی راولپنڈی سے آئی ہے کہ اٹلی سے آنے والی ایک فیملی کو بغیر سکریننگ کے جانے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کیا اسلام آباد ایئر پورٹ پر روا رکھی جانے والی اس غفلت پر کسی نے کوئی کارروائی کی اور کسی کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا؟
کریم خواجہ صاحب کا کہنا تھا مجھے زیادہ پریشانی پنجاب کی ہے۔ بلوچستان سے بغیر سکریننگ سے چار سو سے زیادہ زائرین پنجاب آ چکے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ پنجاب حکومت چاہتی تو ایک دن میں نادرا سے ریکارڈ لے کر ان سب کی سکریننگ ہو سکتی ہے لیکن کسی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیا معلوم ان میں سے کتنے لوگ وائرس سے متاثر ہو چکے ہوں اور اب تک مزید کتنے ہی لوگوں کو اس سے متاثر کر چکے ہوں۔ وزیر اعظم صاحب ذاتی طور پر اگر اس سارے عمل کی نگرانی فرما رہے ہیں تو کیا وہ عثمان بزدار یا ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ سے باز پرس کریں گے کہ ان چار سو لوگوں کو تلاش کرنے اور ان کی سکریننگ کرنے کے لیے اب تک پنجاب حکومت نے کوئی قدم اٹھایا ہے یا نہیں؟ کیا پنجاب حکومت کو کچھ علم بھی ہے کہ یہ لوگ کون تھے؟ کیا نادرا سے ان کا ڈیٹا لے کر ان کی شناخت کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟
کراچی بندرگاہ پرکارگو ٹریفک کے حوالے سے بھی سندھ حکومت کی شکایات ہیں۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ کراچی پورٹ پر بیرون ملک سے آنے والا سازو سامان بغیر کسی غیر معمولی اہتمام کے، معمول کے مطابق اتارا جا رہا ہے اور ملک بھر میں ا س کی ترسیل ہو رہی ہے۔ متعدد دفعہ وفاق سے درخواست کی گئی ہے کہ یہ بے احتیاطی خطرناک ہو سکتی ہے اس پر توجہ دی جائے لیکن تا حال وفاق نے سندھ حکومت کی درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اپوزیشن کو درست طور پر مشورہ دیا جا رہا ہے کرونا پر سیاست نہ کی جائے لیکن خود اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ رات میری میئر کراچی جناب وسیم اختر سے بات ہوئی تو انہوں نے گورنر سندھ کی ٹیم کی تعریف کی کہ وہ بہت کام کر رہی ہے۔ مجھے پوچھنا پڑا کہ کیا وزیر اعلیٰ سندھ کی ٹیم بھی کچھ کر رہی ہے یا سب کچھ گورنر صاحب کی ٹیم ہی کر رہی ہے؟ میں نے کہا کیا یہ الزام درست ہے کہ وفاق نے کرونا کی تشخیص کے لیے جو سامان وغیرہ دیا ہے وہ سندھ کے سرکاری ہسپتال یا سندھ حکومت کو دینے کی بجائے کچھ پرائیویٹ ہسپتالوں کو دیا گیا ہے تو انہوں نے جواب میں صرف یہ فرمایا کہ جسے بھی دیا گیا ہے وہاں اس کا درست استعمال ہو رہا ہے۔ یہ جواب ظاہر ہے تسلی بخش نہیں ہے۔ صوبے میں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے جو بھی بندوبست کیا جائے صوبائی حکومت کی مشاورت اس میں شامل ہونی چاہیے۔ بلکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صحت ایک صوبائی معاملہ ہے اور اپنی عمومی ناقص کارکردگی کے برعکس کرونا کے معاملے پر سندھ حکومت نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو یہ سہولیات سندھ حکومت کے حوالے کر دینی چاہییں تا کہ وہ جہاں موزوں سمجھے ان کا استعمال کرے۔ کرونا پر سیاست یقینا نہیں ہونی چاہیے لیکن کیا یہ مفید مشورہ صرف دوسری جماعتوں کے لیے ہے یا اس کا اطلاق خود تحریک انصاف کی حکومت پر بھی ہو گا؟
قوم سے خطاب وزیر اعظم کا استحقاق ہے۔ وہ جب چاہیں خطاب فرمائیں، ہم دل تھام کر اسے سنیں گے۔ لیکن اس سے پہلے اگر اصلاح احوال کی مزید کچھ کوششیں کر لی جائیں تو یقین کیجیے اس سے خطاب کے بانکپن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس وقت طبی سہولیات کی فراہمی اور انتظامی غلطیوں کے ازالے کی ضرورت ہے۔ اقوال زریں اور قوم سے خطاب کے لیے تو سال کے بارہ موسم پڑے ہیں۔