ہمارے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم نے کورونا جیسی وبا کو بھی فرقہ واریت کا عنوان بنا دیا؟ صف بندی ہو چکی ہے اور جنگجوئوں کی شمشیر کی زد میں میں کورونا وائرس نہیں اپنے اپنے حریف ہیں۔ فقہی بھی اور سیاسی بھی۔ دشنام بکف لشکری زبان حال سے گویا منادی دے رہے ہیں کہ کورونا سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ایک موقع ہاتھ آیا ہے تو اب حریفوں میں سے کسی کی دستار سلامت نہ رہنے پائے۔ موضوع اب یہ نہیں رہا کہ کورونا کی ہلاکت خیزی سے نجات کی صورت کیا ہو سکتی ہے، زور اب اس پر ہے کہ کس گروہ کو زیادہ مطعون کیا جا سکتا ہے۔ ایک طبقے کی شیریں زبانی کی تلوار وطن عزیز میں ایران سے لوٹنے والے زائرین پر کوند رہی ہے اور دوسرے گروہ کا ترکش تبلیغی جماعت پر خالی ہو رہا ہے۔ سوالات اگر خالصتا طبی بنیادوں پر اٹھتے تو بجا تھے اور اٹھنے چاہیں تھے، اب مگر صف بندی کا عنوان طب نہیں، بغض، نفرت اور سیاسی مفادات ہیں۔ فرقے اورسیاست کی دکان میں نفرت کا کاروبار سلامت رہنا چاہیے، ملک میں بھلے فرقہ واریت کی آگ لگ جائے تو پرواہ نہیں۔
آغاز تفتان سے ہوا اور سوالات اٹھے۔ یہ سوالات انتظامی نوعیت کے تھے۔ زائرین کی وطن واپسی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ زیارتوں پر جانا ان کا حق تھا اورپاکستان ان کی دھرتی تھی جہاں واپسی کیلیے وہ کسی کی نظر کرم کے محتاج نہ تھے۔ اپنے ملک میں لوٹنا ان کا بنیادی انسانی حق تھا اور ہے۔ سوال یہ نہیں تھا کہ انہیں واپس کیوں آنے دیا گیا۔ سوال یہ تھا کہ ان کی واپسی کے وقت مناسب انتظامات کیوں نہیں کیے گئے تھے؟ جب حکومت کو علم تھا ہزاروں زائرین ایران میں ہیں اور حکومت یہ بھی جانتی تھی کہ ایران میں کورونا وائرس آچکا ہے تو حکومت ان کے لیے مناسب انتظامات کیوں نہ کر سکی؟ سرحد پر نہ سہی، سرحدسے بہت دور کسی شہر سے باہر عارضی انتظامات کیے جا سکتے تھے۔ حکومت نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور زائرین اور ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کو اذیت اور پریشانی میں مبتلا کر دیا۔
حقیقت یہ تھی کہ زائرین کی بجائے حکومت کی انتظامی غفلت تھی جس نے یہ بحران پیدا کیا۔ زائرین پر تب انگلی اٹھتی اگر وہ غیر قانونی طریقے سے گئے ہوتے یا غیر قانونی طریقے سے واپس آئے ہوتے یا اس وقت ایران گئے ہوتے جب ٹریول ایڈوائزری میں اس کی ممانعت کی جا چکی ہوتی۔ اسی طرح اگر طبی اور انتظامی غفلت پر کوئی آواز اٹھا رہا تھا تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں تھا کہ زائرین کے کسی حق کی نفی ہو رہی ہے اور ایک گروہ بلاوجہ اس پر خفا ہو کر اس انتظامی غفلت کا بھی دفاع کرنے لگ جائے۔ ایک گروہ نے انتظامی غفلت سے صرف نظر کرتے ہوئے زائرین کو تنقید کا نشانہ بنا دیا اور دوسرے گروہ نے جواب آں غزل کے طور پر انتظامی غفلت کے مرتکب افراد کا دفاع کرنا شروع کر دیا اور ان زائرین کو بھی تنقید سے بالاتر قرار دیا جانے لگا جنہوں نے قرنطینہ میں غیر ذمہ دارانہ رویہ رکھا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک خالصتا انتظامی معاملہ فرقہ وارانہ صف بندی کا عنوان بن گیا۔
یہی معاملہ تبلیغی جماعت کا ہوا۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ تبلیغی اجتماع میں غفلت کی گئی اور حکومتی درخواست نہیں مانی گئی تو لازم تھا کہ سوال اٹھتے۔ یہ سوال بھی خالصتا طبی اور انتظامی نکتہ نظر سے اٹھے کیونکہ یہ بات اب حقیقت ہے کہ اس غفلت سے کورونا نہ صرف پاکستان میں بلکہ فلسطین میں بھی پھیلا۔ سوال پیدا ہونا فطری امر تھا کہ جب دنیا کے طبی ماہرین اجتماع سے منع کر رہے ہیں اور خود بیت اللہ میں اجتماع کو محدود تر کر دیا گیا ہے تو ریاست کی بات کیوں نہیں مانی گئی اور اجتماع پر کیوں اصرار کیا گیا۔ جب کورونا کے مزید کیسز سامنے آئے تو سوالات کی معنویت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
لیکن یہاں بھی معاملہ طبی اور انتظامی دائرہ کار سے نکل گیا اور عصبیت کے دائرے میں چلا گیا۔ ایک طبقے نے اس طبی اور انتظامی غفلت کی بنیاد پر تبلیغی جماعت کے خلاف ایک مہم سی برپا کر دی۔ انتظامی غفلت پر تنقید ضرور کی جاتی لیکن یہاں معاملہ نفرت کی ایک مہم میں بدل دیا گیا۔ دوسرے طبقے نے جواب میں اس کے دفاع کا مورچہ سنبھال لیا۔ مولانا فضل الرحمن بھی اپنا ووٹ بنک محفوظ کرنے میدان عمل میں آ گئے کہ اب بھی حکومت کو رگڑا نہ دیا تو کہیں کفران نعمت نہ ہو جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر دو گروہ کی صف بندی کی بنیاد خیر خواہی، طب، مفاد عامہ یا اصلاح کی بجائے فرقہ وارانہ نفرت اور محبت ہے۔ ایک ایسی وبا ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے جس نے دنیا کو ہلا دیا اور ہم فرقہ وارانہ اور سیاسی عصبیت کے آزار سے بلند ہی نہیں ہو پا رہے۔ عمران خان اپوزیشن کو اپنا خطاب سنا کر اجلاس سے اٹھ جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا صرف ان سے محبت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور وطن عزیز میں ا ن کے علاوہ نہ کوئی شخص عزت نفس رکھتا ہے نہ کوئی اس قابل ہے کہ اس کو عزت دی جائے۔ اتنے بڑے بحران میں عمران خان نرگسیت کے آزار سے باہر نہیں نکل پا رہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا تھا انہوں نے ٹائیگر فورس بنا دی۔ سب کو معلوم ہے ٹائیگر وہ اپنے کارکن کو کہتے ہیں۔ اس نام سے ایک خاص گروہی تاثر ابھرتا ہے۔ اس نازک مرحلے پر کوئی فورس بنانا ہی تھی تو لازم تھا اس کا نام ایسا ہوتا جس سے کسی خاص سیاسی نسبت کا تاثر نہ ابھرتا۔ لیکن ان کی نرگسیت اپنے عروج پر ہے۔ مراد علی شاہ نے شروع میں کچھ اچھے اقدامات کیے، ان کا حوالہ دیا گیا تو حکمران جماعت کے سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں نے اسے اپنی توہین سمجھ لیا۔ کسی کے چھوٹا ہونے کی یہ سب سے بڑی علامت ہوتی ہے وہ دوسرے کی تعریف کو اپنی تضحیک سمجھ لے۔ قافلہ انقلاب کو یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے علاوہ کسی کے سر پر دستار رہے۔ یہ تومعلوم نہیں کورونا کس فرقے سے ہے، شیعہ ہے یا سنی، نونہال انقلاب ہے یا بیانیہ لے کر ٹوٹ پڑا ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ کورونا وائرس کے مقابلے میں ہماری صف بندی میں فرقہ واریت کا آزار اتر چکا ہے۔