کورونا کے بارے میں تو قوم کی رہنمائی فرما دی گئی ہے کہ اس سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے، سوال اب یہ ہے کہ قرنطینہ کا کیا کرنا ہے؟ آپ گلی کوچوں میں پھر کر دیکھ لیجیے لوگ کورونا سے نہیں قرنطینہ کے ڈر سے سہمے پڑے ہیں۔ نہ کوئی ٹیسٹ کرا رہا ہے نہ کوئی ہسپتال جانے کو تیار ہے۔ پریشاں حال لوگ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ کورونا سے تو شائد بچ جائیں گے لیکن ہسپتال یا سرکاری قرنطینہ چلے گئے تو کیا ہو گا؟ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ یہ خوف صرف سازشی تھیوری کے اسیر نیم خواندہ اور جاہل لوگوں میں ہی سرایت نہیں کر چکا، سینئر ڈاکٹرز بھی سہمے پڑے ہیں۔ کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ایک سینئر ڈاکٹر گھر پر ہی جان گنوا بیٹھے کیونکہ انہیں یہ مرض لے کر ہسپتال یا قرنطینہ جانا گوارا نہ تھا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکومتوں کی انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ایک نفسیاتی بحران اس قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حکمران اگر بے نیازی کے خول سے نکل سکیں تو انہیں معلوم ہو یہ بحران کورونا وائرس سے کم خطرناک نہیں۔
یہ نفسیاتی بحران دن بدن شدت اختیارر کرتا جا رہا ہے اور خوف کے سائے طویل ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ کورونا سے زیادہ اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کسی سچی جھوٹی رپورٹ نے انہیں کورونا کا مریض بنا دیا توان کا اور ان کے بچوں کا کیا بنے گا۔ اس معاملہ سے جس بے بصیرتی سے نبٹا گیا، یہ خوف اس کا منطقی نتیجہ ہے۔ مرض کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں جس طرح مریضوں کو اہل خانہ سمیت اٹھا لیا جاتا ہے اس نے عام آدمی کا نفسیاتی توازن تباہ کر دیا ہے۔ سرکاری قرنطینہ اور ہسپتالوں سے آنے والی خبریں اس خوف میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں کیونکہ یہاں بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ اہل اقتدار ایسی خبروں کی دو چھٹانک کی تردید بھی گوارا نہیں کرتے۔
رپورٹس کے معیار کا عالم یہ ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ملازم میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ میں جو ہوا وہ باقیوں کے لیے تو محض خبر ہو گی لیکن وکلاء کے لیے وہ ایک ڈرائونا خواب ہے۔ ہر سو خوف پھیل گیا۔ سرگرمیاں محدود ہو گئیں اور معاشی امکانات تباہ ہو گئے۔ اب معلوم ہو رہا ہے وہ بھائی صاحب تو صحت مند تھے۔ وہ پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ کراتے ہیں تو کورونا ٹیسٹ منفی آتا ہے اور وہ صحت مند قرار پاتے ہیں لیکن سرکاری لیبارٹری سے ہونے والا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اور وہ بیمار قرار پاتے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں۔ دنیا بھر میں ہر طرف سے لیبارٹریوں کے ٹیسٹ کی صحت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ تنزانیہ کے صدر نے تو بھیڑ، بکری اور حتی کہ پپیتے کا سیمپل بھجوایا اور جواب آیا:" تینوں افراد کو کورونا وائرس لاحق ہو چکا ہے"۔
ایک جانب ٹیسٹ رپورٹس میں آنے والا یہ تضاد ہے اور دوسری طرف یہ خبر ہے کہ اب حکومت بڑے پیمانے پر کورونا کے ٹیسٹ کرنے جا رہی ہے۔ یعنی اب کوئی قسمت کا دھنی ہو گا جو بچ رہے ورنہ کیا معلوم کون کم بخت کہاں ان ٹیسٹوں کے شکنجے میں آئے اور پھر کسے خبر رپورٹ مثبت آتی ہے یا منفی۔ عوام کے اعصاب چٹخانے کو ساتھ ہی اعلان فرمایا جاتا ہے سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے اب جو بھی سبزی لینے آئے گا اس کا ٹیسٹ ہو گا۔ اب جس میں ہمت ہے وہ سبزی لے کر دکھائے۔ حیرت ہوتی ہے یہ حکومتیں کورونا سے لڑ رہی ہیں یا عوام کی نفسیات تباہ کرنے پر تلی ہیں۔
کل کی خبر ہے کورونا کے "مستند"مریضوں میں سے 70 فیصد میں کوئی علامات موجود نہیں۔ عام حالات میں یہ لوگ خود ہی ٹھیک ہو جاتے اور انہیں کبھی معلوم ہی نہ ہوتا انہیں کوروونا ہوا بھی یا نہیں۔ ان کی قوت مدافعت کورونا وائرس پر غالب ہو جاتی۔ اتنی غالب تعداد غیر متاثرہ مریضوں کی ہے لیکن پھر بھی وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کا فیصلہ کرنا ایک ناقابل فہم بات ہے۔ جن میں کچھ علامات ہیں ان کا ٹیسٹ کرنا ہے تو کر لیجیے لیکن راہ چلتے لوگوں کو پکڑ کر ٹیسٹ کرناکہاں کی دانشمندی ہے۔ کیا ضروری ہے ہر اس سوراخ میں گھسا جائے جہاں مغربی ممالک جا گھسے؟
ماس ٹیسٹنگ سے ہو گا کیا؟ جھوٹے یا سچے، زیادہ مریض سامنے آئیں گے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ نہ آپ کے پاس اتنے ہسپتال ہیں، نہ سہولیات ہیں، نہ وسائل ہیں۔ ان مریضوں کا پھر آپ کیا کریں گے؟ ان میں سے 70 فیصد تو وہ ہوں گے جن میں سرے سے کوئی علامات ہی نہیں ہوں گی۔ کیا آپ ان تمام مریضوں کو سرکاری قرنطینوں میں بند کر دیں گے جو اپنی بد انتظامی سے پہلے ہی خوف کی علامت بن چکے ہیں؟ سوال پھر وہی ہے: اس سے کیا ہو گا؟
حکومت صوبوں کی ہو یا وفاق کی، کورونا پر صرف سیاست فرمائی جا رہی ہے۔ ایک جامع اور موثر پالیسی کسی کے پاس نہیں ہے۔ لاہور میں ایک بچے اور باپ کو وائرس لاحق ہوا تو باپ الگ رکھا گیا اور معصوم بچہ الگ۔" اہل دانش " تصویریں دکھا دکھا کر لوگوں کو ڈراتے رہے کہ کہ آپ کے بچوں کو بھی وائرس ہو گیا تو ایسے رکھا جائے گا ااس لیے احتیاط کیجیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوف پیدا ہوا اور چیخ و پکار ہوئی۔ جب چیخ و پکار ہوئی تو عثمان بزدار نے حکم جاری فرمایا : بچے کو باپ کے ساتھ رکھا جائے۔ اس غریب پرور ی پر پھر قصیدے لکھے گئے۔ حالانکہ یہ قصیدے کا نہیں فکر کا مقام تھا کہ اتنا بڑا بحران اور حکومت نے کوئی ایس او پی ہی جاری نہیں کر رکھا کہ ایسی صورت میں کیا ہو گا۔ خبر نہ بنتی، فوٹونہ ہوتی اور سوشل میڈیا پر شور نہ اٹھتا تو باپ کہیں ہوتا بچہ کہیں ہوتا اور اہل دربار ٹوئٹر پر داد شجاعت دے رہے ہوتے۔
کورونا ٹائیگر فورس ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس کا بنیادی کام یہ تھا کہ لاک ڈائون کے دنوں میں گھروں تک لوگوں کو ریلیف پہنچائے۔ لیکن اس سارے دورانیے میں اس کا کہیں وجود نہ تھا۔ اس فورس کے ابتدائی نقوش اب واضح ہو نا شروع ہوئے ہیں جب لاک ڈائون ختم ہو رہا ہے۔ ٹھیک ہے ابھی ویکسین نہیں بنی اور عوام کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ ان پر رحم تو کیا جا سکتا ہے؟ رحم عالی جاہ رحم!