کورونا کی تیسری لہر ملک کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کیا ہم یہ جان سکتے ہیں وہ کورونا ٹائیگرز کہاں ہیں، سال پہلے جن کی شان میں بڑے سہرے کہے گئے تھے اور قوم کو بتایا گیا کہ معلوم انسانی تاریخ میں دردمندی اور خدمت خلق سے سرشار ایسا گروہ آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا۔ تب اہل دربار نے یہ سن کر کس وارفتگی سے کہا تھا: پہلی بار صاحب پہلی بار، واہ صاحب واہ۔ اور آج یہ عالم ہے کہ ملک بھر کی خاک چھان مارو تو کہیں کورونا ٹائیگر فورس کا کوئی شہسوار دکھائی نہیں دیتا۔
حکومت کے پاس، محسوس یہ ہوتا ہے کہ، کورونا سے نبٹنے کے لیے چند اقوال زریں کے سوا کچھ نہیں۔ ٹوئٹر پر سر شام قوالی ہوتی ہے اور معروف قوال اپنے اپنے ہمنوائوں کے ساتھ سماں باندھ دیتے ہیں، پھر رات گئے تک نونہالان سر دھنتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ اے اہل وطن دیکھو غریب پروری کیا ہوتی ہے۔ عوام کو عملا بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو بچ گئے انہیں ہم دیکھ لیں گے۔ طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور حکومتی عملداری کو محکمہ تعلیم جیسے ہومیو پیتھک ادارے نے پھونک مار کر اڑا دیا ہے۔ نینشل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے تمام متاثرہ اضلاع کے تعلیمی ادارے بند کرنے کا حکم دیا ہے لیکن لاہور اور راولپنڈی سمیت متاثرہ شہروں میں کالج کھلے ہوئے ہیں۔ حکومتی عملداری کو محکمہ تعلیم نے آملیٹ بنا دیا ہے لیکن حکومت وقت کو اس کا کوئی احساس نہیں۔
جو وزیر با تدبیر آتا ہے عوام کو لعن طعن شروع کر دیتا ہے کہ یہ غیر سنجیدہ ہے اور کورونا اسی کم بخت کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ عوام بھی ذمہ دار ہوں گے لیکن عوام پر اجتماعی تبرا بھیجنے والی حکومت اور اس کے وزراء کرام کیا اپنی ذمہ داریاں پوری کر پا رہے ہیں۔
عوام ماسک لگانے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوں گے لیکن وہ کون تھا جس نے وزیر اعظم کے ماسک نہ پہننے پر باقاعدہ قصیدہ پڑھ کر ان کی فضیلت کا ابلاغ کیا تھا؟ 2 اپریل کو شہباز گل صاحب نے جو ٹویٹ فرمایا تھا، ذرا پڑھ لیجیے۔ فرماتے ہیں: " جب وزیر اعظم عمران خان کو ہر روز فرنٹ لائن پر بغیر کسی ماسک کے لڑتا دیکھتا ہوں تو وسوسے ختم ہو جاتے ہیں۔ اور خوشی ہوتی ہے کہ ایک دلیر لیڈر کے ساتھ ایسے مشکل حالات میں کام کرنے کا موقع ملا"۔ یعنی جب وزیر اعظم پاکستان، جنہیں رول ماڈل ہونا چاہیے تھا خود کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی فرما رہے تھے تو اہل دربار نہ صرف اسے دلیری قرار دے رہے تھے بلکہ اس دلیری پر مرحبا اور آفرین کہنے میں مصروف تھے۔ کیا یہ اچھا ہوتا کہ تب بھی فوج بلا لی جاتی کہ وزیر اعظم ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، ذرا ان کی خبر لیجیے۔
کیا ہمیں یاد نہیں کہ کورونا کا خطرہ سر پر تھا اور حکومت وقت سینیٹ کے چیئر مین وغیرہ کے انتخاب کے وقت شاہراہ دستور پر ملک بھر سے کارکنان کو اکٹھا ہونے کی کال دے رہی تھی۔ طبی ماہرین دہائی دے رہے تھے کہ ایسا مت کیجیے لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بند ہالوں کے اندر تقاریب، میلے اور کنسرٹ کرائے اور کورونا ایس او پی کو پامال کیا۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی گواہی موجود ہے کہ جس وقت حکومتی سر پرستی میں یہ میلے ٹھیلے ہو رہے تھے اس وقت اسلام آباد میں کورونا کے مریضوں کی تعداد دگنی ہو چکی تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کا زور بھی غریبوں پر چلتا ہے اس لیے وہ بھی صرف ٹویٹ ہی فرماتے رہ گئے۔ ویسے بھی آج کل بیوروکریسی " ٹویٹو ٹویٹ" ہوئی پڑی ہے اور زمین پر کام کرنے کی اسے فرصت نہیں۔
کہنے کو ویکسین لگائی جا رہی ہے مگر اس سست روی سے کہ خوف آتا ہے۔ نجی شعبے کو بظاہر اجازت دی گئی ہے کہ ویکسین منگوا لے لیکن ویکسین پھر بھی دستیاب نہیں ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس وقت اسلام آباد کے نجی ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں سے صرف کمرے کے کرائے کی مد میں تیس سے پینتیس ہزار روپے بٹورے جانے کی اطلاعات ہیں۔ یہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے سے بھی مہنگا ہے۔ عوام کی شکایات سننے والا ہی کوئی نہیں۔ لوٹ مار مچی ہے۔ آکسیجن اور ڈاکٹروں کے اخراجات ملا کر ایک سے ڈیڑھ لاکھ یومیہ کے ہیں۔ ڈاکٹر فضل ہادی جو اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ ہیں اور جن کا کام ان ہسپتالوں کے خلاف شکایات سننا ہے ان کے بارے میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ وہ خود ایک نجی ہسپتال کے انتظامی معاملات میں شریک ہیں۔ عوام نے گھبرانا تو بالکل نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میں عوام کہاں جائیں؟
دن ڈھلتا ہے تو طنطنے سے ٹوئٹر پر کارروائی ڈال دی جاتی ہے کہ ہم نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ قوم سے خطابات بھی ہو جاتے ہیں۔ فیصلے ہو جاتے ہیں کہ متاثرہ اضلاع کے تعلیمی ادارے عید تک بند رہیں گے۔ لیکن طلباء اور والدین کو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ متاثرہ اضلاع میں سے کچھ کے کالجز اب بھی کھلے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں نے اگر اس انتہائی اعلی سطح پرہونے والے فیصلوں کو بھی نہیں ماننا تو وزیراعظم ہماری رہنمائی کر دیں کہ ان کی عملداری کہاں سے کہاں تک ہے؟ کیا ان کا اقتدار صرف ٹوئٹر تک ہے؟ اور ان کی افادیت کیا مہینے میں قوم سے دو عدد خطابات فرمانے تک ہے؟
شروع میں جب کورونا کی لہر آئی تو فواد چودھری صاحب نے خوشخبری سنائی کہ وہ کووڈ ٹیسٹنگ کٹ تیار کر چکے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اب جناب شبلی فراز کے پاس ہے لیکن وہ کٹ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔ دعوے سنیں تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے انسانی تاریخ میں اتنی قابل حکومت آج تک نہیں آئی لیکن عمل کی میزان پر انہیں پرکھیں تو اس کا حاصل بے بسی اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں۔ جو حکومت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر جیسے اہم ترین ادارے کے واضح فیصلے کے باوجود متاثرہ اضلاع میں کالجز بند نہ کرا سکے اس حکومت سے کوئی کیا توقع رکھے؟
ٹویٹر پر البتہ سب خیریت ہے۔ لیکن کورونا ٹائیگر ٹوئٹر پر بھی کہیں نہیں ہے۔ اسے کہاں تلاش کیا جائے؟