کورونا وائرس سے بچائو کے لیے کیا ایلو پیتھی ہی واحد طریق علاج ہے یا صدیوں پرانے دیسی شعبہ طب سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے؟ ایلو پیتھک طریق علاج کی نفی ہر گز مقصود نہیں، لیکن ایسے عالم میں جب ویکیسن ابھی تیار نہیں ہوئی اور جدید میڈیکل سائنس فی الوقت بے بس ہے، کیا ناگزیر طریق علاج کے طور پر جڑی بوٹیوں اور قدیم طب سے استفادہ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
میں نے اس سوال کو ذرا آسان لفظوں میں آپ کے سامنے رکھ دیا ہے، ورنہ آپ بین السطور پڑھنے کے عادی ہوں تو آپ کو معلوم ہو گا یہ سوال میرا نہیں، یہ پاکستان میں تعینات چینی سفیر محترم کا سوال ہے۔
سفیر محترم نے اپنے انداز سے بات کی ہے۔ چینی تہذیب میں لٹھ نہیں مارا جاتا۔ وہ ایسے ہی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جیسے چین نے طب کے قدیم طریق علاج سے کورونا پر قابو پایا ہے ایسے ہی پاکستان بھی جڑی بوٹیوں سے علاج کر کے اس وائرس پر قابو پا لے گا اور یہ بحران عارضی ہو گا۔ کیا ہم غور فرما سکتے ہیں یائو جنگ صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟
چین کے بارے میں دنیا بھر میں ایک شور مچا ہے۔ وائرس کس شہر سے پھیلا، کیسے پھیلا، وہ کیا کھاتے تھے کہ یہ وائرس پھیلا، وہ کیا پیا کرتے تھے جس کی وجہ سے اس وائرس کا پھیلائو ہوا۔ انہوں نے لاک ڈائون کیسے کیا، کب کیا اور اس کی نوعیت کیا تھی۔ ان تمام پہلوئوں پر اہل نظر نے دیوان لکھ مارے ہیں، نہیں لکھا تو صرف یہ نہیں لکھا کہ چین نے کورونا کا علاج کیسے کیا؟ اس میں چونکہ جدید میڈیکل سائنس کے ساتھ ساتھ چین کی ہزاروں سال پرانی طب کے جڑی بوٹیوں کے نسخہ جات بھی بروئے کار آئے اس لیے جدید دنیا نے اسے مقامات آہ و فغاں سمجھ کر نظر انداز کیا۔
اب سوال یہ ہے کیا ہمارے لیے بھی ضروری ہے ہم قدیم طب اور جڑی بوٹیوں کا ذکر سن کر حقارت سے کندھے اچکا لیں یا ہم کم از کم ایک ناگزیر اور عبوری طریقہ علاج کے طور پر اس متبادل پر غور فرما سکتے ہیں؟ کم از کم اس وقت تک جب تک ویکسین تیار ہو کر مارکیٹ میں نہیں آ جاتی۔ انٹر نیشنل جرنل آف بائیولاجیکل سائنسز میں کسی اضطرار ی متبادل کو"Supportive care" کہا گیا ہے تو چلیے ہم بھی اسے علاج نہ سہی "Supportive care" ہی سمجھ لیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟
سٹیٹ ایڈ منسٹریشن آف ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسن کا کہنا ہے کہ جو پہلا مریض چین میں صحت یاب ہوا وہ اسی قدیم طریق علاج سے ہوا تھا۔ نیشنل ہیلتھ کمیشن آف چائنا کا کہنا ہے اس سے قبل جب سارس آیا تھا تب بھی اس کے 58اعشاریہ 3 فیصد کنفرم مریضوں کو جڑی بوٹیوں سے علاج کے ذریعے صحت مند کر دیا گیا تھا۔ اب جب کورونا آیا تو چین میں نیشنل ہیلتھ کمیشن اور جنرل آفس آف نیشنل ہیلتھ نے اکیلے کام نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ سٹیٹ ایڈ منسٹریشن آف ٹریڈیشنل چائینیز میڈیسن بھی شامل تھا۔ کہیں مریضوں کا علاج صرف جڑی بوٹیوں سے ہوا اور کہیں جدید ادویات کے ساتھ جڑی بوٹیوں کو بھی شامل رکھا گیا۔
چینی صدر کا کہنا ہے کہ ان روایتی جڑی بوٹیوں سے علاج چین کی قدیم تہذیب کا ایک خزانہ ہے جو اس قوم کی عقل کا آئینہ دار ہے اور اس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ چین نے کیا کیا؟ چین نے ملٹھی، ادرک اور اوفیرا پلانٹ کا قہوہ بنا کر مریضوں کو پلایا۔ چین کے مطابق اس کے 90 فیصد نتائج نکلے۔ ان نوے فیصد کی بھی چین نے باقاعدہ وضاحت کی ہے کہ کتنے صحتیاب ہو گئے اور کتنے شدید بیماری سے سنبھل گئے۔ یعنی کہیں اس نے مکمل علاج کا کام کیا اور کہیں اس نے"Supportive care" کا کام کیا لیکن نوے فیصد کیسز میں یہ علاج کارآمد رہا۔
اب اس پر مغربی اخبارات و جرائد میں اس پر بڑا دلچسپ رد عمل دیا گیا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ کہ چین کا یہ موقف طبی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور چین اپنے طریق علاج کی شہرت کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ امریکی موقف سے البتہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چین کی بجائے امریکہ کا موقف طبی کی بجائے سیاسی ہو اور وہ محض اس رقابت میں چینی طریق علاج کی مکمل نفی کر رہا ہو؟ اگر سازشی تھیوری پر ہی بات کرنا ہے تو اس کا اطلاق تو ہر دو اطراف کے موقف پر ہو سکتا ہے۔
چین کا جوابی موقف بھی دل چسپ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا میں ہمارا قدیم طریق علاج جب کسی نے اختیار ہی نہیں کیا تو اس کی نفی کیسے کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر جنگلی ادرک پر امریکہ میں پابندی ہے اور اسے مضر صحت قرار دیا جا تا ہے لیکن چین میں 1320میں لکھی طب کی کتاب میں ادرک، ملٹھی وغیرہ کے فوائد موجود ہیں اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ Treatise on Cold damage Diseases کے نام سے موجود ہے۔ ایک قوم صدیوں کی طبی دانش کے نچوڑ سے کیسے لاتعلق ہو سکتی ہے؟
یہ کام مگر ہم پاکستانیوں نے بہت اچھے طریقے سے کر لیا ہے۔ ہمارے ہاں طب اور حکمت کی حکومتی سرپرستی موجود ہی نہیں۔ نہ ہی ہمارے ہاں اس شعبے میں کوئی تحقیق ہوئی۔ حکیموں کے گھروں میں جو پیدا ہو گئے بس ان میں سے چند نے پرانے نسخوں کی بنیاد پر کام چلایا اور یوں یہ شعبہ منجمد ہو گیا۔ لیکن قدیم نسخوں کی افادیت تو ختم نہیں ہوئی۔
مریض تھوڑے جدید ہو گئے اور سردیوں میں دو چھینکیں آئیں تو لوگ بچوں کو اٹھا کر چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس بھاگتے ہیں اور وہ اینٹی بائیوٹک کی ففتھ جنریشن دے کررخصت کر دیتا ہے۔ پمز کے ڈاکٹر جے کرشن اور ڈاکٹر حیدر شیرازی جیسے کتنے ہوں گے جو اینٹی بائیوٹک دینے کے قائل ہی نہ ہوں اور آپ کو ایک ہی بار سمجھا کر بھیج دیں کہ بچے کو شہد کھلائیے اور ادرک کے عرق میں شہد ملا کر کھلائیے تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ بلاوجہ اوربار بار آکر ہمیں فیس دینا مناسب نہیں ہے۔
سوال وہی ہے کہ جب تک ویکسین نہیں آتی، تب تک "Supportive care"کے طور پر ہی سہی، اس قدیم طریق علاج سے رجوع کر لینے میں کیا برائی ہے؟ ڈیجیٹل دور نے شاید ہماری نفسیاتی گرہوں کو بھی ڈیجیٹل کر دیا ہے، اب یہ دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں۔