ٹریل فائیو پر بہت آگے، وادی عبور کر کے، اوپر پہاڑ پر چڑھ کر ایک مقام پر ایک گھونسلہ آتا ہے۔ پگڈنڈی کے ساتھ نیچے کی طرف ایک پتھر نیچے وادی کی جانب آگے کو نکلا ہوا ہے۔ یہ خطرناک جگہ ہے کیونکہ اس کے آگے وادی کی گہری کھائی ہے البتہ احتیاط کے ساتھ ایک آدمی اس پتھر پر آرام سے بیٹھ سکتا ہے۔ اس کا نام میں نے برسوں پہلے گھونسلا رکھا تھا کیونکہ اس میں بیٹھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ آپ بہت اوپر الگ تھلگ مقام پر، کسی عقاب کے گھونسلے میں بیٹھے ہیں اور آپ کے پروں کے نیچے درہ جنگلاں اور اس کی وادی پھیلی ہوئی ہے۔
یہیں گھونسلے میں بیٹھا وادی میں تیرتے ایک پرندے کی پرواز دیکھتے دیکھتے اچانک ایک خیال نے دستک دی کہ آج سے دس سال بعد کا اسلام آباد کیسا ہو گا؟ یہ وادی، یہ پگڈنڈیاں، یہ چشمے، یہ ندیاں، یہ جنگل، یہ خاموشی اور یہ حسن جو آج ہمیں دستیاب ہے کیا دس سال بعد یہ بھی موجود ہو گا یا اس سب کے تذکرے بس کتابوں میں رہ جائیں گے کہ مرغزار سے اوپر ایک جنگل ہوتا تھا، جنگل میں ہرن، لو، مڑیاں اور چیتے ہوتے تھے اور وادی میں سے چشمے پھوٹتے اور ندیاں بہتی تھیں۔
بیس سال پہلے کا اسلام آباد آج کے اسلام آباد سے مختلف تھا۔ بلیو ایریا کے ساتھ تب گھنا جنگل ہوتا تھا، اب وہاں جنگل کاٹ کر نصف پر سڑک بنا دی گئی ہے اور نصف پر پلازے کھڑے ہو گئے ہیں۔ بلیو ایریا میں یونیورسٹی کا ہاسٹل ہوتا تھا اور ہم نیچے سڑک پر کرکٹ کھیلتے تھے۔ اایک دو اوور کے بعد کبھی کوئی گاڑی گزرتی تھی اور کھیل روکنا پڑتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ چھوٹی سی ایک سڑک کی بجائے اس سے دگنے سائز کی تین سڑکیں بن چکیں اور کرکٹ کھیلنا تو دور کی بات اب پیدل سڑک عبور کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
تب شہر جی ٹین پر جا کر ختم ہو جاتا اور اس سے آگے کھیت کھلیان اور پہاڑی ٹیلے ہوا کرتے تھے۔ اب جی ٹین سے میلوں آگے تک سیکٹر آباد ہو چکے ہیں۔ زیروپوائنٹ پر بابا غلام فرید کا تکیہ اب فلائی اوور کے بیچ کہیں گم ہو چکا ہے۔ سڑکوں کے توسیعی منصوبے کئی بستیوں اور ڈھابوں کو نگل چکے ہیں۔ شکر پڑیاں کا جنگل اب کنکریٹ کے جنگل میں بدلتا جا رہا ہے۔ آنکھیں بند کر کے بیس سال پرانے اسلام آباد کو یاد کریں اور پھر آنکھیں کھول کر آج کے اسلام آباد کو دیکھیں تو یقین نہیں آتا یہ وہی اسلام آباد ہے یا ہم ایلیٹ کی " ویسٹ لینڈ" میں آن اترے ہیں۔
عجیب انداز سے لکیریں کھینچ کر یہ شہر آباد کیا گیا۔ اس زمانے کا ماسٹر پلان دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے منصوبہ سازوں کو ایک ایسا شہر چاہیے تھا جہاں ایک سیکٹر کا دوسرے سیکٹر سے کوئی خاص تعلق نہ ہو۔ کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی سے اکتائے ہوئے ایوب خان نے ایک سیکٹرز کے نام پر کچھ الگ الگ اس گوشے اس انداز سے آباد کر دیے جیسے باہمی میل جول اور سماجی رابطوں کی باقاعدہ حوصلہ شکنی مقصود ہو۔ ایف نام سے آباد سیکٹرز میں اشرافیہ کو لا بٹھایا گیا اور جی نامی سیکٹرز میں رعایا کو بٹھایا گیا۔ ایک وقت تک تک تو یہ انتظام چل گیا اب مگر سماجی تفاوت کی یہ ترتیب بدل رہی ہے، شہر بھی پھیل رہا ہے اور خوفناک مسائل دستک دے رہے ہیں۔
تمام سرکاری دفاتر ریڈ زون میں ہیں۔ اسلام آباد کے ایک کونے پر۔ کاروباری سرگرمی کا بڑا مرکز بلیو ایریا اور سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد میلوں دور تک پھیل چکا ہے۔ ایک جانب بی 17 ہے جو ٹیکسلا تک چلا گیا ہے دوسری جانب آئی 18 ہے جو ٹھلیاں انٹر چینج کے قریب ہے۔ ایئرپورٹ سے سی پیک روڈ اور چکری تک نئی ہائوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں۔ یہ ٹریفک میلوں سفر کر کے بلیو ایریا اور ریڈ زون کی طرف آتی ہے۔ بلیو ایریا کی طرف نہ آئے اور یہ بہائو جی ٹین تک بھی آئے تب بھی ٹریفک کا یہ ایک سیلاب ہے۔
میلوں پھیلی ان تمام سوسائٹیز کو اسلام آباد سے جوڑنے کے لیے ایک ہی سڑک ہے جسے سری نگر ہائی وے کہتے ہیں۔ اسلام آباد سے پشاور یا لاہور وغیرہ کی طرف جانے والی تمام ٹریفک بھی اسی راستے سے گزرتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی عمارت بھی ان نئے سیکٹرز میں کہیں تعمیر کرنے کی بجائے ریڈ زون میں سپریم کورٹ کے سامنے تعمیر کی جا رہی ہے۔ گویا جس نے ہائی کورٹ آنا ہے وہ پورے شہر کا سفر کر کے یہاں پہنچے گا۔ اور ریڈ زون میں دو سے تین ہزار گاڑیوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ کہیں کوئی منصوبی بندی نہیں کہ شہر میلوں تک پھیل گیا ہے تو سرکاری دفاتر میں سے کچھ کو ایک کونے سے اٹھا کر کہیں اور لے جایا جائے تا کہ ٹریفک کا بہائو ایک ہی سڑک پر نہ رہے۔
شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں۔ صبح سویرے گاڑیوں کی دو دو کلومیٹر لمبی لائن لگی ہوتی ہے اور اکثر گاڑیوں میں صرف ایک بندہ بیٹھا ہوتا ہے۔ رش بڑھتا جا رہا ہے اور اچھی پبلک ٹرانسپورٹ دینے کی بجائے گرین بیلٹ اور درختوں کو کاٹ کر سڑک چوڑی کر کے اپنے تئیں اس کا حل نکال دیا جاتا ہے لیکن کب تک؟ شہر میں میٹرو یا ریل چلے تو شور مچ جاتا ہے اتنی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک میٹرو میں اتنے لوگ سفر کرتے ہیں جتنے لوگ عام حالات میں پچاس گاڑیاں لے کر نکلتے ہیں۔ اعصابی دبائو، پٹرول کا بے تحاشا استعمال، ماحولیاتی آلودگی، وقت کی بربادی جیسے ڈھیروں مسائل کے ساتھ میٹرو اور ٹرین کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہو پبلک ٹرانسپورٹ کی افادیت کیا ہے۔
جنگل دھیرے دھیرے کاٹے جا رہے ہیں۔ نیشنل پارک میں ہوٹل کھل رہے ہیں۔ ٹریل فور کے عین سامنے کسی طاقتور شخصیت کا کیفے قائم ہے۔ دھیرے دھیرے یہ سلسلہ پھیلے گا۔ غریبوں کے کھوکھے اور ڈھابے گرا دیے گئے ہیں لیکن اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ طاقتوروں کے قبضے یہاں ویسے ہی " ریگولرائز" ہو جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو سوچ سکے دس سال بعد اس شہر کا حال کیا ہو گا؟