گرمیوں کی خاموش دوپہر ہو اور کسی پہاڑ کی دہلیز پر پھیلے جنگل میں آپ ندی کنارے کسی بوڑھے درخت کی چھائوں میں بیٹھے ہوں اور یونہی چپ چاپ بیٹھے بیٹھے پہر بیت جائے۔ وفورِ شوق کو اور کیا چاہیے؟ اور گر میوں کی یہ دوپہر رمضان المبارک میں آئے تو جنگل کا سناٹاآپ سے باتیں کرنے لگتا ہے، گیان بانٹنے لگتا ہے۔
درہ جنگلاں کی ندی عبور کریں تو تین راستے نکلتے ہیں۔ سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا آگے تک دھوپ ہم سفر رہتی ہے۔ سورج کی تمازت سے بہت سے مسافر یہیں سے لوٹ جاتے ہیں۔ یہ راستہ آگے جا کر جب ندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے تو اس پر چھائوں آ جاتی ہے۔ ایسی ٹھنڈی اور میٹھی چھائوں جو روح کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ ندی کے دوسرے موڑ پر پہنچتے ہیں تو جنگل ماں کی طرح آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ شہر اور اس سے جڑی ساری چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ افریقی کہاوت ہے کہ جو آپ کو آغوش میں لے لے، اسے جنگل تو نہ کہیے۔
لوگ ندی عبور کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں سے خشک ندی کے اندر ہی اندر بائیں طرف چلتے جائیے تو ایک الگ ہی دنیا ہے۔ ایسے جیسے آپ کسی پرستان کو جا رہے ہوں۔ ایسا سناٹاکہ کوئی پرندہ زمین پر چل رہا تو اس کے پنجوں تلے چٹخنے والے پتے بھی شور مچانے لگیں۔
سامنے پہاڑ ہے، پہاڑ سے ندی نکل رہی ہے، ندی کنارے کچنار سے بھرے پڑے ہیں، کچناروں پر پھول کھلے ہیں، پھلوں پر تتلیاں اور پرندے رقص کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے دوپہر درختوں پر کہنیاں ٹیکتی ہے، تتلیاں گھروں کو لوٹ جاتی ہیں اور پرندے خاموش ہوجاتے ہیں۔ دوپہر کے وقت جنگل میں گیان اترتا ہے۔ جب گیان اترتا ہے تو سارا جنگل چُپ ہو جاتا ہے۔
گرمیوں کی دوپہر جنگل میں کوئی نہیں جاتا۔ جنگل جانے کا مگراس سے اچھا وقت بھی کوئی نہیں۔ ہمت ہو تو ندی کے دوسرے موڑتک چلے جائیے اور ہمت نہ ہو تو درہ جنگلاں کی دہلیز پر برگد کے چار سو سالہ قدیم درخت کی چھائوں میں بیٹھ جائیے اور ان وقتوں کا تصور کیجیے جب یہاں بری امام بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہوں گے۔ شین کاف نظام نے کہا تھا: ہے ہوا حمد اور دعا جنگل۔ گرمیوں کی دوپہر میں، مارگلہ کا جنگل بھی حمد اور دعا ہوتا ہے۔
جاتی بہار کی ایسی ہی ایک دوپہر تھی۔ میں درہ جنگلاں کے برگد کے درخت کے نیچے لیٹا تھا، وائلڈ لائف سٹاف اور سامنے ہٹ پر کام کرنے والے الیاس صاحب چار سکھ سرداروں کو لے کر وہاں آ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سردار جی کچھ پوچھ رہے ہیں اور ہمیں علم نہیں، شاید آپ بتا سکیں۔ میں اٹھ بیٹھا، مہمانوں کو عزت سے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ اب جو سردار جی نے کہانی سنائی تو دل لہو ہو گیا۔
یہ بھارت سے آئے ہوئے مہمان تھے۔ اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے بعد اب وہ مارگلہ کے ان پہاڑوں میں گھوم رہے تھے۔ سردار جی کو ڈھوک جیون کے قبرستان کی تلاش تھی۔ ان کے والد صاحب قیام پاکستان سے پہلے اسی گائوں میں رہتے تھے اور اب وہ اپنے والد کے دوست حاجی حیات کی قبر پرحاضری کے لیے ڈھوک جیون کا قبرستان ڈھونڈ رہے تھے۔ حاجی حیات ان کے بابے، کا لنگوٹیا تھا۔ اور اب وہ پاکستا ن آئے تھے تو حاجی حیات کی قبر کے درشن کرنا چاہتے تھے۔ مرنے سے پہلے ان کے بابے، نے انہیں حکم دیا تھا کہ پاکستان جائو تو میرے یار کی قبر کی مٹی چومے بغیر واپس نہ آنا۔
میں نے پوچھا آپ کے بابے، کو کیسے معلوم ہوا کہ حاجی حیات صاحب کا انتقال ہو گیا اور وہ ڈھوک جیون قبرستان میں دفن ہیں؟
سردار جی نے کہا، ان کا انتقال تو اسی زمانے میں ہو گیا تھا جب ہمارے وڈکے، اسی گائوں میں رہتے تھے۔ تو کیا آپ کے والد صاحب نے آپ کو قبرستان کی جگہ نہیں بتائی تھی؟ مارگلہ کا پہاڑ بتایا تھا، کچھ گائوں کے نام بھی بتائے تھے، اب تویہاں کا جنگل اتنا بڑا شہر بن چکا۔ اور کون کون سے گائوں کے نام بتائے تھا؟
سردار جی نے ڈائری نکالی اور پانچ سات نام لیے۔ اتفاق سے ان میں سے میں صرف ایک نام سے واقف تھا۔ اور وہ نام سید پور تھا۔ میں نے سردار جی سے معذرت کی کہ مجھے اس نام کے کسی گائوں کا علم نہیں۔ یہ ساتھ ہی سید پور ہے۔ وہاں تشریف لے جائیے اور کسی بوڑھے آدمی سے پوچھیے، شاید وہ آپ کی مدد کر سکے۔
سردار جی تو چلے گئے لیکن یہ سوال میرے پاس ہی چھوڑ گئے کہ ڈھوک جیون کا قبرستان کہاں ہے اور سردار جسبیر سنگھ کے یار حاجی حیات کی قبر کہاں ہے۔ وقت گزرتا گیا اور یہ سوال میرے ساتھ رہا۔ مارگلہ کی پگدنڈی پر کوئی بوڑھا دیہاتی ملتا تو میں یہ سوال اس کے آگے رکھ دیتا، کوئی تاریخ دان، کوئی پروفیسر کوئی مقامی بزرگ، کوئی پٹواری، جہاں سے مجھے جواب کی ذرا سی بھی امید ہوتی، میں ہتھیلی پر رکھا سوال آگے کر دیتا۔
پاکستان آرکائیوزکے ریکارڈ، قومی اسمبلی کی لائبریری، سی ڈی اے، جب جہاں اور جس کام کے لیے بھی جانا ہوتا، یہ سوال ساتھ ہی رہتا کہ ڈھوک جیون قبرستان کہاں ہے۔ پاکستان آرکائیو ز میں پرانے اخبارات الٹتے پلٹتے ایک روزمعلوم ہوا کہ جہاں ڈھوک جیون گائوں ہوا کرتا تھا وہاں ایک سیکٹر آباد ہو چکا ہے، جس کا نام ای سیون ہے۔
یہیں سے معلوم ہوا کہ جب اسلام آباد بن رہا تھا تو مقامی لوگوں سے یہ وعدہ کیا کیا گیا تھا کہ ان کے قبرستان محفوظ رکھے جائیں گے۔ چنانچہ آج بھی اسلام آباد میں گھومتے پھرتے قدیم قبرستانوں کے علاوہ سڑکوں کے کنارے کچھ قبریں نظر آ جاتی ہیں جو اصل میں اسی وعدے کی عملی شکل میں اب تک برقرار ہیں۔
ایوان صدر کے پہلو میں پی ٹی وی کے سامنے محمد علی صاحب کی ایک قبر ہے جو 1947میں فوت ہوئے۔ فیض آباد سے آگے موجودہ پریڈ گرائونڈ کے ساتھ گرین بیلٹ پر بھی قبریں موجود ہیں۔ جی ٹین میں ایک قبر کو بچانے کے لیے پوری سڑک کو موڑ دیا گیا ہے۔ مارگلہ کے دامن میں سید پور سے پہلے برگد کے ایک قدیم درخت کو بچانے کے لیے سڑک کو موڑا گیا ہے۔ اس سے تسلی سی ہوئی کہ کہیں نہ کہیں ڈھوک جیون کا قبرستان بھی مل ہی جائے گا۔
ڈھوک جیون قبرستان کی تلاش میں مارگلہ کا دامن چھان مارا کہ شاید قبرستان کہیں پہاڑ میں ہو۔ جامعہ فریدیہ میں دو قبریں ملیں جن کے کتبے پر لکھا تھا:حال مقیم ڈھوک جیون۔ لیکن یہ دو ہی قبریں تھیں۔ شاید ڈھوک جیون کے رہائشی میاں بیوی یہاں اپنے ڈیرے پر دفن ہوئے ہوں۔ شاید ڈھوک جیون قبرستان کہیں آس پاس ہی ہو۔
پہاڑ چھان مارا مگر قبرستان نہ ملا تو میں شہر کی طرف آ گیا۔ سارا ای سیون گھوم کر خوب تسلی کی کہ کہیں کوئی قبرستان مل جائے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ احمد رضا قصوری صاحب ای سیون کے قدیم رہائشی ہیں، ان سے پوچھا کہ شاید انہیں ایسے کسی قبرستان کا علم ہو لیکن وہ بھی کچھ نہ بتا سکے۔ مارکیٹیوں اور وہاں کے رہنے والوں سے پوچھا لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہ آ سکا۔ (جاری ہے)