صبح یہ خبر چل رہی تھی کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کو لوئر دیر میں جلسہ کرنے سے روک دیا ہے اور جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا، عمران خان لوئر دیر میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ ایک شہری کے طورپر میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس ملک میں اداروں، ان کے ضابطوں اور اور ان کے قوانین کی حیثیت کیا ہے؟ جس ملک کے الیکشن کمیشن کے ضابطے کو اس ملک کا وزیر اعظم ہی پامال کر دے اس ملک میں شفاف الیکشن کا انعقاد کبھی ممکن ہو پائے گا؟
یہ ملک ایک عرصے سے ہیجان کی جس کیفیت سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات ہیں۔ پہلے یہ اعتراض عمران خان کو تھا اور ان کا خیال تھا کہ پینتیس پنکچرز لگا کر ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے اور اب یہی اعتراض حزب اختلاف کو ہے جو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لا رہی ہے۔
انتخابی عمل کو اگر معتبر نہیں بنایا جائے گا تو یہ بات یقینی ہے کہ اگلے عام انتخابات بھی ایک بحران کو جنم دیں گے اور سیاسی ہیجان میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ معیشت کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو اب بیان کی بھی محتاج نہیں کیونکہ یہ سب پر بیت گئی ہے۔ معیشت اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتی جب تک ملک میں سیاسی افراتفری کا خاتمہ نہیں ہوتا اور سیاسی استحکام نہیں آ جاتا۔ سیاسی استحکام اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک انتقال اقتدار کی کوئی شفاف صورت سامنے نہیں آ جاتی۔
انتقال اقتدار کی واحد شفاف صورت یہ ہے کہ انتخابی عمل کو معتبر بنایا جائے۔ اس عمل کا اعتبار اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک با معنی اصلاحات نہیں ہوتیں اور ایک دیانت دار اور طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی نہیں بنا دیتا۔ لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ صبح خلق خدا یہ خبر پڑھ رہی ہو کہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کو لوئر دیر میں جلسے سے روک دیا ہے اور سہہ پہر میں وہ یہ خبر پڑھ اور سن رہے ہو ں کہ وزیر اعظم لوئر دیر میں خطاب فرما رہے ہیں؟
اس وقت سیاسی بیانیے میں وہ موقف نمایاں ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نے اس جلسے میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے انہیں فضل الرحمن کو ڈیزل کہنے سے منع کیا ہے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں تو نہیں کہتا عوام کہتے ہیں۔ یوں گویا انہوں نے سیاست کے اخلاقی وجود ہی کی نفی نہیں کی یہ بھی بتا دیا کہ خیر خواہی کے طور پر جس اسلوب گفتگو سے اہم ریاستی عہدوں پر فائز لوگ بھی انہیں روکنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم کو اسی گفتگو پر اصرار ہے۔ اور نہ صرف اصرار ہے بلکہ وہ خیر خواہ کا نام لے کر اس کے مشورے کی بر عکس کام کر رہے ہیں اور جلسہ عام میں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اب مضامین باندھے جا رہے ہیں کہ یا تو وزیر اعظم یہ ذکر ہی نہ کرتے کہ کسی نے انہیں دوسروں کو برے القابات سے پکارنے سے منع کیا ہے یا پھر وہ اس منع کرنے پر رک جاتے۔ لیکن وہ ہجو بھی کر رہے ہیں اور ممانعت کا ذکر بھی کر رہے ہیں تو وہ اصل میں چاہتے کیا ہیں ؟
ہو سکتا ہے کہ اپنی جگہ پر یہ بھی اہم پہلو ہو لیکن سر دست میرا موضوع کچھ اور ہے۔ اس تحریر کی حد تک سوال یہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے جلسہ عام میں کیا کہا۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی ممانعت کے باوجود وزیر اعظم اس جلسے میں کیسے اور کیوں شریک ہو گئے؟ اور اس شرکت کے ذریعے وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کو اپنی پارٹی کو اور حزب اختلاف کو کیا پیغام دیا ہے؟ یہی کہ اگر آپ طاقتور ہیں تو آپ کو الیکشن کمیشن کے کسی انتخابی ضابطے کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ملک کا وزیر اعظم ہی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہا ہے تو کیا وفاقی وزراء اس ضابط اخلاق کا احترام کریں گے؟ یہ نہیں کریں گے تو کیا حزب اختلاف کرے گی؟ اعلی جمہوری قیادت کا رویہ اگر ایسا ہو گا تو کیا نچلی سطح پر طاقتور افراد انتخابی ضابطے کی خلاف ورزی فیشن اور حق سمجھ کر نہیں کریں گے؟ قانونی شکنی ایسے ہی سٹیٹس سمبل بنتا ہے۔ معاشرے جب برباد ہوتے ہیں تو یہ حادثہ اچانک نہیں ہوتا۔ یہ نامہ اعمال ہوتاہے جس کی سیاہی دھیرے دھیرے ظہور کرتی ہے۔
الیکشن کمیشن کو اب یہ سوچنا ہے کہ اس کا ضابطہ اخلاق کیا محض چند اقوال زریں کا مجموعہ ہے یا اس کے پاس کوئی قوت نافذہ بھی ہے۔ اگر تو محض میٹھے میٹھے ہومیوپیتھک مشوروں کا نام ہے تو اس کے ساتھ لکھ دیجیے کہ یہ الیکشن کمیشن ہے، یہ اس کا ضابطہ اخلاق ہے اور جو اس پر عمل کرے اس کا بھی بھلا ہو اور جو اس پر عمل نہ کرے اس کا بھی بھلا ہو۔ لیکن اگر یہ سچ میں کوئی قانون ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس اگر قوت نافذہ ہے تو اس کا نفاذ ہونا بھی چاہیے اور سب کو نظر بھی آنا چاہیے۔ وزیر اعظم سمیت سب اہل سیاست کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پامالی کوئی مذاق نہیں ہے۔
یہ کام کوئی اور کرے تو دکھ ہوتا ہے لیکن یہی کام عمران خان کریں تو دکھ زیادہ ہوتا ہے۔ حزب اختلاف میں تھے تو عمران خان کیسے کیسے اقوال زریں سنایاکرتے تھے، یاد آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ یہ بات وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ادارہ سازی ہونی چاہیے۔ ادارے اہم ہوتے ہیں افراد نہیں۔ یہ اقوال زریں وہ اس شدت سے دہراتے کہ میرے بہنوئی اور بھائی نے سرگودھا میں ایک کالج بنایا اور ہم نے عمران خان کو اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا تو راستے میں بھی اور وہاں پہنچ کر بھی وہ یہی بات دہراتے رہے کہ کالج تو بن گیا۔ اب اسے ادارہ بنائیے۔
چند سال بعد اس کالج کی بچیوں نے اوپر تلے فیڈرل بورڈ میں اول پوزیشن لی تو میں نے عمران خان صاحب کو بتایا کہ جس کالج کا افتتاح آپ نے کیا تھا یہ اس کی کارکردگی ہے۔ وہ خوش ہوئے اور پھر وہی بات کی کہ اسے ایک ادارہ بنائیں۔ افراد آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، ادارہ باقی رہتا ہے۔
آج اسی عمران خان کی حکومت ہے لیکن ادارہ سازی کہیں نظرنہیں آ رہی۔ شخصیت کو ہر ادارے پر غالب لانے کی شعوری کوششیں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جو ادارہ مزاج یار کے خلاف کوئی کام کرتا ہے اسے بائونسرز کی زد میں لے لیا جاتا ہے۔ کسی کو امان نہیں۔
کل کو جب یہ اقتدار نہیں رہے گا تو یہی عمران خان ہمیں بتا رہے ہوں گے کہ دیکھیے الیکشن کمیشن کو ہمیں ایک ادارہ بناناہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات آج کیوں نہیں سمجھی جا رہی۔ الیکشن کمیشن کے کسی فیصلے سے اختلاف بھی ہو تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے فیصلے کی یوں پامالی ایک ایسا اقدام ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔