سوال یہ ہے کہ اس الیکشن کی سب سے تکلیف دہ ا ور اذیت ناک چیز کیا ہے؟ ہر آدمی کے پاس اس سوال کا الگ الگ جواب ہوگا تاہم میرے نزدیک اس الیکشن کی سب سے تکلیف دہ اور اذیت ناک چیز یہ ہے کہ یہ الیکشن 49 ہزار6 سو درختوں پر مشتمل پورا ایک جنگل کاٹ کر منعقد فرمایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے الیکشن پر تو ایک درخت بھی قربان کرنا گوارا نہیں کیا جا سکتا، کجا یہ کہ اس نا معتبر مشق کے لیے پورا ایک جنگل قربان کر دیا جائے۔
درہ جنگلاں میں ندیوں سے بھری وادی عبور کرکے پہاڑ پر چڑھنا شروع کریں تو تھوڑا آگے جا کر ایک چٹان آتی ہے جسے گھونسلا کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پہاڑ کی چوٹی پر کسی عقاب کا گھونسلا ہو اور اس میں بیٹھ کر وہ پوری وادی پر نظر رکھتا ہو۔ جاڑے میں یہاں سنہری دھوپ پڑتی ہے اور گھنے جنگل کی ٹھٹھرتی پگڈنڈی سے ٹھٹھرتے ہوئے یہاں پہنچ کر دھوپ سینکنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ اس مقام کی اضافی خوبی یہ ہے کہ یہا ں موبائل کے سگنل بھی کام کرتے ہیں اور دھوپ میں بیٹھ کر فیس بک، ٹوئٹر اورواٹس ایپ سے بھی جی بہلا سکتے ہیں۔
صبح دم کی ہلکی بارش کی وجہ سے جنگل کی مٹی سے ابھی تک خوش بو اٹھ رہی تھی۔ میں یہاں دھوپ میں آ کر بیٹھ گیا اور انٹر نیٹ پر جنگل سے متعلق چیزیں پڑھنا شروع کر دیں۔ پڑھتے پڑھتے میرے سامنے ڈاکٹر محمد خورشید صاحب کی ایک تحقیق آئی اور پریشان کر گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فاریسٹ مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور جنگل اور ماحولیات کے گنے چنے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ کا ایک مختصر ترین خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتاہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
1۔ اس الیکشن میں 25 کروڑ بیلٹ پیپر تیار کیے گئے ہیں۔
2۔ اتنی بڑی تعداد میں بیلٹ پیپر چھاپنے کے لیے 2 ہزار 70 ٹن کاغذدرکار ہوگا۔
3۔ ایک ٹن کاغذکے حصول کے لیے 24 بڑے درخت کاٹ کر استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی چوبیس درخت کاٹے جاتے ہیں تب جا کر ان سے ایک ٹن کاغذ تیار ہوتا ہے۔
4.2 ہزار 70 ٹن کاغذ کے حصول کے لیے 49 ہزار 6 سو درخت کاٹ کر استعمال ہوں گے۔
5.ماحولیات کا مالیاتی حجم نکالیں تو ایک سال میں ایک درخت سے جو ماحولیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کا حجم 36 سو ڈالر ہے۔ ہم 49 ہزار 6 سو درخت کاٹ رہے ہیں تو اس کو چھتیس سو ڈالر سے ضرب دے لیجیے۔
6.تاہم نقصان کا یہ تخمینہ صرف درختوں کے مالیاتی کنٹری بیوشن سے متعلقہ ہے۔ حقیقی نقصا ن کا حجم بہت زیادہ ہے۔
یہ رپورٹ پڑھی تو میں نے مارگلہ کی درہ جنگلاں کی وادی پر نظر ڈالی۔ میں فارسٹری کا ماہر نہیں ہوں، میں صرف اس کا مداح ہوں۔ میرا اندازہ غلط ہو سکتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اسلام آباد کا سارا جنگل بھی کاٹ دیا جائے تو ان انتخابات کے لیے درکار کاغذ تیار نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں بند کرکے تصور کیا کہ عام انتخابات میں پچاس ہزار کے قریب درخت کاٹ کر جب بیلٹ پیپرز کا کاغذ تیار ہوگا تو جنگلات کے ساتھ کیا ہوگا۔ اس تصور سے ہی بدن میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔
ہو سکتا ہے یہ کاغذ ہم نے کہیں باہر سے منگوایا ہو۔ اس صورت میں بھی یہ سوال تو اپنی جگہ اہم ہے کہ جہاں سے بھی منگوایا ہے، پچاس ہزار درختوں کا ستیا ناس تو کروایا ہے۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ سے اس تاثر کی بھی نفی ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اس کاغذ کے لیے درکار پچاس ہزار درختوں کا سارا بوجھ پاکستان کے جنگلات پر پڑا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی دو سے تین فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔ اور اس کا بھی ہم یہ حشر کر رہے ہیں کہ ان انتخابات کے لیے پچاس ہزار کے قریب درختوں کا قتل عام کرنے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ جنگلات جس ملک میں کاٹے جا رہے ہیں وہ وطن عزیز پاکستان ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی جنگلات کم ہیں اور جو ہیں ان میں بھی تین سے چار فیصد کمی ہو چکی ہے۔ انتخابات سے مجھے ویسے ہی کوئی خاص دل چسپی نہیں ہوتی کہ ایک خاص قسم کی اشرافیہ کا ایک کھیل ہے اور اس الیکشن میں تو بالکل بھی نہیں ہے۔ عام آدمی پر ایوانوں کے دروازے ویسے ہی بند ہیں۔ اس کا کام صرف ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور تعلقات خراب کرکے سیاسی آقائوں کی مجاوری ر ہ گیا ہے۔ اس کی نسلوں میں سے بھی کوئی ایوان تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایوانوں تک چند گھرانوں کے نابغوں نے ہی پہنچنا ہے۔ یہاں ایک ہی طبقہ پارٹیاں بدل بدل کر مسلط ہوتا ہے۔ کوئی بھی جیت کر آ جائے سب کی پالیسیاں اور طریق واردات قریب قریب ایک جیسا ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اس سب کے لیے اس طرح کے الیکشن میں کیا پچاس ہزار درخت قربان کر دینے چاہییں؟ کیا بیلٹ پیپر کے لیے اس دور میں بھی درختوں کا قتل عام کرکے کاغذی بیلٹ پیپر تیار کرنا ضروری تھا۔ کیا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی اور راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ معلوم نہیں آپ سب کا کیا فیصلہ ہے لیکن میں نے تو مارگلہ کے جنگل پر ایک نگاہ ڈالی تو وجود کی ایک ایک پور سے آواز آئی کہ ایسے انتخابات کے لیے تو ایک درخت قربان نہیں کیا جا سکتا، پچاس ہزار درخت تو بہت دور کی بات ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو تخمینہ ہے وہ صرف بیلٹ پیپرز کا ہے کہ صرف ان کی تیاری میں پچاس ہزار کے قریب درخت استعمال ہوئے ہیں۔
الیکشن کے لیے کاغذ کا استعمال صرف بیلٹ پیپر میں تو نہیں ہوتا۔ سٹاف کی تربیت سے لے کر اشتہارات اور اسٹکرز اور پمفلٹ تک یہی کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ بات پچاس ہزار درختوں تک نہیں رہے گی۔ یہ ایک لاکھ درختوں کے قتل عام تک جا پہنچے گی۔ کاغذ کا استعمال بعض صورتوں میں ناگزیر ہے۔ آگے چل کر شاید اس کا بھی متبادل نکل آئے تاہم اس استعمال کا بھی کوئی تناسب تو ہو۔ صرف ایک دن کی انتخابی مشق میں ایک لاکھ کے قریب درختوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا ایک ایسی چیز ہے جو انتہائی پریشان کن ہے اور ہمیں دعوت فکر دے رہی ہے کہ انتخابات کا بیلٹ پیپر کاغذکی بجائے کسی اور شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی آخر کس مرض کی دوا ہے۔ انتخابی بحث میں لایعنی گفتگو کے دیوان مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن جو حقیقی موضوعات ہیں وہ مکمل نظر انداز ہوئے پڑے ہیں۔ اشرافیہ سے منسلک امور پر ماہرین بال کی کھال اتار دیتے ہیں لیکن جن معاملات کا تعلق خدا اور ماحول سے ہے ادھر توجہ دینے کے لیے کسی کے پاس فرصت نہیں۔ دن ڈھل رہا تھا، میں نے مارگلہ کے جنگل کو جی بھر کر دیکھا اور اس کے کان میں سرگوشی کی کہ اس حسن پر اتنا نہ اترانا، تم ہمارے ایک الیکشن کی مار ہو۔