الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کی قانون سازی مبارک۔ درخواست یہ ہے کہ اس مرحلہ شوق سے پہلے پہلے کچھ چھوٹے چھوٹے کام کر لیے جائیں۔ میں اپنے مشاہدے کی چند چیزیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، اپنے اپنے مشاہدے کی روشنی میں آپ اس درخواست کے متن میں اضافہ فرما سکتے ہیں۔
کشمیر پر تقریر کے علاوہ اس حکومت کا واحد کام جو نظر آتا ہے، ڈپلومیٹنک انکلیو کی دہلیز پر نصب وہ کرفیو کائونٹر ہے جو بتاتا ہے کہ کشمیر میں حالیہ بھارتی غاصبانہ اقدام کو کتنا وقت گر چکا ہے۔ کتنے دن، گھنٹے اورمہینے، یہ کائونٹر لمحہ لمحہ گن رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئے روز یہ کائونٹر خراب پڑا ہوتا ہے۔ کبھی دن غائب ہو جاتے ہیں، کبھی گھنٹے، تو کبھی پورے کا پورا کائونٹر ہی رخصت پر چلا جاتا ہے۔ ہر ڈپلومیٹ یہاں سے گرتا ہے اور یہ خراب کائونٹر اسے آواز دیتا ہے کہ بھائی صاحب ذرا رکیے اور دیکھتے جائیے ہم آزادی کشمیر کیلیے کس قدر کوشاں ہیں۔ تو صاحب ملک کے 154 اضلاع میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے الیکشن کروانے سے پہلے پہلے دارلحکومت کے ریڈ زون میں واقع یہ واحد اور اکلوتا الیکٹرانک بورڈ تو ڈھنگ سے چلا کر دکھا دیجیے۔ آپکی عین نوازش ہو گی۔
بنکوں سے زیادہ محفوظ نظام کس کا ہو گا۔ لیکن ابھی اس خبر کی بازگشت ہوائوں میں ہے کہ کیسے نیشنل بنک جیسے بنک کے سسٹم پر سائبر اٹیک ہو ا، اے ٹی ایم، موبائل ایپس اور بنک کا داخلی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ نیشنل بنک ہی نہیں ایف بی آر کا نظام بھی مفلوج کر دیا گیا۔ خود وزیر خزانہ نے انکشاف فرمایا کہ ایف بی آر کا نظام سات روز تک بھارتی ہیکر ز نے مفلوج کر کے رکھا۔ تو جناب مودبانہ درخواست یہ ہے کہ الیکشن بے شک الیکٹرانک مشینوں سے کرائیے لیکن اس سے پہلے پہلے یہ موجود نظام کو تو تھوڑا معتبر کر دیجیے تا کہ الیکٹرانک مشین کا نام سن کر لوگ " سلیپنگ موڈ، میں نہ چلے جائیں۔ گلی کوچے میں بنک کھلے پڑے ہیں۔ لیکن چند قسمت والی برانچیں ہی ہوتی ہیں جن کا اے ٹی ایم کام کر رہا ہوتا ہے۔ کمانڈ دیں تو پیسے نہیں نکلتے لیکن رقم کاٹ لی جاتی ہے۔
بعض اوقات یہ رقم اگلے چند منٹوں میں واپس آ جاتی ہے اور بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ ازرہ کرم آپ انتظار فرمائیں، بنک انشاء اللہ صرف 90 رو زکے اندر اندر آپ کے پیسے لوٹا دے گا۔ تالیاں پیٹیے اور آئندہ عام انتخابات تک پیٹتے جائیے کہ آپ ہی کی رقم جو آپ سے ہتھیا لی گئی ہے آپکو صرف 90 روز میں لوٹا دی جائیگی۔ اس دوران اخراجات آپکو پریشان کریں تو اہل خانہ سمیت کسی نزدیکی پناہ گاہ میں پناہ حاصل کر لیجیے۔ تو عالی جاہ رعایا کی التجا ہے کہ الیکشن بے شک الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کیجیے لیکن اس سے پہلے پہلے بنکوں کی اس ڈیجیٹل واردات کا دورانیہ تو مختصر فرما دیجیے۔ عین ہی نہیں، غین نوازش بھی ہو گی۔
گلی گلی بائیو میٹرک کی سہولت دستیاب ہے۔ معمولی سا کام ہوتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے بائیو میٹرک کروائیے۔ اگلے روز میں اس تجربے سے گزرا۔ نصف گھنٹہ متعلقہ عملہ انگوٹھے سے مشق کرواتا رہا لیکن بائیو میٹرک نہ ہو سکی۔ وہ بھلے لوگ یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ ان کی مشین میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے، انکی ضد تھی کہ خرابی میرے انگوٹھے میں ہے۔ ایک صاحب بولے آپکے انگوٹھے کے نشانات ہی مٹ چکے ہیں آپ کیا کام کرتے ہیں، میں نے عرض کی کہ کوہ قاف میں کوہ کن ہوں، کوہ کن کے انگوٹھے کے نشانات کیسے باقی رہ سکتے ہیں۔ تو صاحب دس بستہ درخواست ہے کہ الیکشن بھلے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہی سے کروائیے لیکن اس سے پہلے پہلے یہ ذرا بائیو میٹرک کے نظام کی تو اصلاح فرما لیجیے تا کہ کوہ قاف والوں کے انگوٹھے مسئلہ نہ کریں۔
بنکوں یا دفاتر میں جائیں تو عملہ چائے پی رہا ہوتا ہے اور آپ سے کہہ دیا جاتا ہے " سسٹم بیٹھ گیا ہے"۔ جب تک یہ خواتین و حضرات، چائے کی پیالیوں پر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال فرماتے رہتے ہیں سسٹم بیٹھا رہتا ہے۔ کیا خبر الیکشن والے دن بھی یہ سسٹم بھائی جان دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔ اس لیے عرض ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے الیکشن کروانے سے قبل اتنی جان کاری ضرور کر لیجیے گا کہ وہ بھی بیٹھ نہ جائے۔
آج نہیں تو کل ہمیں اس سسٹم کی طرف جانا ہی تھا۔ سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ یہ سفر ارتقائی اصول کے تحت ہونا چاہیے اچانک چھلانگ لگا کر آپ وہ کام نہیں کر سکتے جو جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک بھی نہیں کر رہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی کا عالم یہ ہے کہ بالغان میں سے 40 فیصد ناخواندہ ہیں۔ خواندگی کا معیار بھی ہمارے ہاں یہ ہے کہ جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہے اسے خواندہ تصور کیا جائے گا۔ اب اس چالیس فیصد ناخواندہ آبادی سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنا ووٹ کا بنیادی حق لازمی طور پر اس پیچیدہ طریقے سے کرے جو بے شک اسکی سمجھ میں ہی نہ آتا ہو کیا ایک منطقی قدم ہو گا؟ تو صاحب عرض یہ ہے کہ ووٹنگ بھلے الیکٹرانک مشین سے کرائیے لیکن اس سے پہلے تھوڑا سا شرح خواندگی پر بھی توجہ فرما لیجیے۔
ڈیجیٹلائزیشن سے ابھی ہمارا معاشرہ پوری طرح مانوس نہیں ہوا۔ جب تک یہ کام نہیں ہوتا تب تک ڈیجیٹلائزیشن کو بطور اختیاری سہولت تو متعارف کرایا جا سکتا ہے لیکن اسے واحد آپشن کے طور پر کیسے متعارف کرایا جا سکتا ہے؟ یہ تو لوگوں کے حق انتخاب کو محدود تر کر دینے والی بات ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اور پریس کلبز وغیرہ میں ہر سال باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ارتقائی فلسفہ کے تحت یہ مشینیں پہلے ان انتخابات میں استعمال کر لی جائیں یا خود پارلیمان کی ووٹنگ ان کے ذریعے کر لی جائے؟
زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ کیا ہماری معاشی صورت حال اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اربوں روپے ان مشینوں میں لگا دیے جائیں؟ قانون سازی جب ز مینی حقائق کو دیکھے بغیر محض اقوال زریں کے طور پر ہوتی ہے تو وہ صرف کتابوں کی زینت بن کر رہ جاتی ہے۔ جیسے قانونی طور پر اردو ہماری قومی زبان ہے اور ریاست آئینی طور پر پابند ہے کہ 1987 تک اردو کو دفتروں میں رائج کرے۔ یاد رہے اس وقت 2021 ہے۔