جناب وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا وٹ تو لے لیا۔ سوال یہ ہے اس کارکردگی کے ساتھ کیا وہ عوام سے بھی اعتماد کا ووٹ لے سکیں گے؟ الیکشن مئی میں ہوں یا اکتوبر میں، ایک نہ ایک دن ہونے ہی ہیں۔ کیا اس نامہ اعمال کے ساتھ وہ عام انتخابات میں عوام سے اعتماد کاووٹ مانگ سکیں گے؟
اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ ایک بے روح رسم تھی۔ عمران خان اپنے غیر سیاسی اورغیر حکیمانہ فیصلوں کی وجہ سے پہلے ہی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے۔ اسمبلی میں اب تھا کون جو مخالفت کرتا۔ یعنی گھر میں تھا کیا جو ترا غم اسے غارت کرتا۔ اسمبلی میں اب حلیف ہی باقی ہیں۔ ایک قائد حزب اختلاف ہیں جوقائد حزب اختلاف کم اور وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف زیادہ لگتے ہیں۔ واضح طور پر اعلان فرما چکے ہیں کہ آئندہ ٹکٹ مسلم لیگ سے لیں گے۔ یہ الگ بات کہ اب ن لیگ والے انہیں پشانتے، بھی نہیں۔
یہ خبر سنی کہ جناب وزیر اعظم نے اسمبلی سے اعتمادد کا ووٹ لے لیا ہے تو حیرت ہوئی۔ یہ ایک غیر متوقع فیصلہ تھا۔ خود سے پہلا سوال یہی کیا کہ اس کی ضرورت کیا تھی؟ جب اپوزیشن قریب قریب مستعفی ہو چکی، اور باقی جماعتیں شریک اقتدار ہیں تو ان حلیف جماعتوں پر مشتمل ایوان سے اعتماد کے ووٹ کی کیا ضرورت آن پڑی؟ وزیر خارجہ نے قرارداد پیش کی اور وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ مل گیا۔ جناب وزیر اعظم نے جناب وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا تو فارسی کی کہاوت یاد آ گئی: من تُرا حاجی بگویم، تو مُرا مُلا بگو (میں تجھے حاجی کہتا ہوں، تو مجھے مُلا کہہ)۔
بظاہر یہ ایک حفاظتی اقدام معلوم ہو رہا ہے۔ اس کی عملی اور علامتی اہمیت (اگر کوئی ہے) تو اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق قانون سے ہے اور دوسرے کا سیاست سے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے اخراجات کے لیے بل قومی اسمبلی کے سامنے رکھ دیا۔ کیونکہ بجٹ میں تو اس کے لیے پیسے تھے نہیں۔ اضافی گرانٹ کی ضرورت تھی۔ یہ گرانٹ سٹیٹ بنک بھی جاری نہیں کر سکتا تھا اور اس نے حکم کے باوجود نہیں کی۔ اب قومی اسمبلی با اختیار ہے منی بل پاس کرے یا نہ کرے۔ قومی اسمبلی نے اسے رد کر دیا۔ یعنی حکومت نے بل پیش کرکے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل بھی کر دیا اور بل مسترد کروا کے عملََا اس پر عمل نہ کرنے کا راستہ بھی نکال لیا۔
یہاں مگر ایک اور سوال پیدا ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ کہ جس حکومت کا منی بل ایوان سے پاس نہ ہو سکے اس حکومت کے پاس حکومت میں مزید رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ پارلیمانی روایات یہی ہیں کہ جب منی بل پاس نہ ہوسکے تو اس حکومت پر عدم اعتماد تصور کیا جائے۔ یہی سوال ایک سماعت پر ضمنی طور پر اٹھا بھی کہ اگر حکومت کا پیش کردہ منی بل قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہو سکا تو کیا اسے حکومت پر عدم اعتماد تصور کیا جائے۔ اگرچہ ابھی تک اس پر تفصیل سے بات نہیں ہوئی۔
معلوم یہی ہوتا ہے کہ حکومتی ٹیم نے آنے والے دنوں میں اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس کا ابھی سے تدارک کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کہیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کا منی بل قومی اسمبلی نے مسترد کر دیا ہے تو کیوں نہ اسے آپ پر عدم اعتماد سمجھا جائے تو حکومت کے پاس اس کا یہ جواب ہو کہ منی بل مسترد ہونے کے باوجود قومی اسمبلی وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اور ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے اس وقت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے جب یہی قومی اسمبلی منی بل کو مسترد کر چکی تھی۔
اس اقدام کی دوسری وجہ سیاسی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس سے بیرونی دنیا کو کوئی پیغام دیا گیا ہو۔ مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اور فوجی قیادت چین کے دورے پر ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے حکومت نے اس اہم موقع پر بیرونی دنیا میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہو کہ اس حکومت کو اور اس وزیر اعظم کو پارلیمان کا اعتماد حاصل ہے۔ یاد رہے کہ ایک اہم دورہ وزیر خارجہ کا بھی اگلے ہی دنوں میں متوقع ہے۔
داخلی سطح پر حکومت کو ایسا کوئی چیلنج در پیش نہیں جس کا علاج اعتماد کے اس ووٹ سے کیاجا سکے۔ مقامی سطح پر جو سیاسی چیلنج ہیں ان کی نوعیت اور ہے اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے یا نہ لینے سے ان چیلنجز کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپوزیشن کا غالب حصہ پہلے ہی مستعفی ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں اب وہی ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے حکومت کے حلیف ہیں۔ حتیٰ کہ قائد حزب اختلاف بھی۔ ایسے میں اعتماد کا ووٹ لے لینا کوئی ایسا غیر معمولی کام نہیں جو حکومت کو مزید مستحکم کر سکے۔ اعتماد کے اس ووٹ سے پہلے جو چیلنج کھڑے تھے، وہ اس ووٹ کے بعد بھی کھڑے ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ تکنیکی نزاکتوں کے سہارے عوامی سیاست نہیں کی جا سکتی۔ قانونی اور پارلیمانی موشگافیوں سے مدت اقتدار بھلے بڑھائی جا سکتی ہے لیکن یہ عوامی تائید کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ حکومتی اتحاد کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا وٹ تو لے لیا۔ سوال یہ ہے اس کارکردگی کے ساتھ کیا وہ عوام سے بھی اعتماد کا ووٹ لے سکیں گے؟
الیکشن ایک نہ ایک دن تو ہونے ہیں۔ وہ مئی میں ہوں یا اکتوبر میں۔ کیا اس نامہ اعمال کے ساتھ وہ عام انتخابات میں عوام سے اعتماد کاووٹ مانگ سکیں گے؟ ہو سکتا ہے حکومت کی یہ بات درست ہو کہ اس نے سخت معاشی فیصلے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا لیکن یہ خالصتاََ معاشی نکتہ انتخابات میں کسی کام کا نہیں ہو ا۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو آئے ایک سال ہوگیا ہے اور اس ایک سال میں لوگوں کو معاشی ریلیف نہیں مل سکا۔ ریلیف تو کیا ملنا تھا لوگوں کی زندگی دو بھر ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے دعوی تو یہ کیے تھے کہ ہم چند ہفتوں میں صورت حال کو سنبھال لیں گے لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں یہ خا لصتاََسیاسی موشگافیں، یہ قانونی جمع تقسیم وقتی طور پر تو حکومت کے کام آ جائے گی لیکن انتخابات میں یہ کسی کام نہیں آئیں گی۔ انتخاب عوامی تائید ہی سے لڑے جا سکتے ہیں اوراس معاشی کارکردگی کے ساتھ عوامی تائید کا حصول ممکن ہی نہیں۔
اعتماد کے ووٹ کی مدت ہی کتنی ہے؟ مئی تک نہ سہی تو اکتوبر تک؟ اس کے بعد جانا عوام ہی کے پاس ہے۔ کیا عوام اس کارکردگی کے ساتھ پی ڈی ایم کو [ اعتماد کا ] ووٹ دے گی؟ یہ اہم ترین سوال ہے۔ کیا حکومتی اتحاد کے پاس ا س سوال کاکوئی جواب ہے؟