سر پکڑ کر بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ فیصل مسجد اسلام آباد کے امام جناب اخلاق مدنی صاحب سادہ بہت ہیں یا ہوشیار بہت؟ کیا سی ڈی اے نے ان کی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا نام استعمال کر لیا یا وہ سب کچھ جانتے ہوئے اس معاملے میں شریک ہوئے؟ حجم کے لحاظ سے یہ واردات بھلے بہت سنگین نہ ہو، نوعیت کے اعتبار سے یہ انتہائی سنگین واردات ہے کیونکہ اس میں سی ڈی اے نے فیصل مسجد کے امام کا نام استعمال کیا ہے۔ لوگ اس نام کو پڑھتے ہیں اور میری طرح سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف نیب کا کیس ہے بلکہ اس نے بہت سے اخلاقی سوال بھی اٹھا دیے ہیں۔
چلیے میں آپ کو سارا واقعہ سناتا ہوں۔ اسلام آباد میں چک شہزاد کے ساتھ شہزاد ٹائون میں کوئی چار سال پہلے ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ قائم کیا گیا۔ میں کبھی کبھار واک کر کے آتے جاتے وہاں سے پانی پیا کرتا تھا۔ یہ پلانٹ کیڈ کے وزیر طارق فضل چودھری اور مئیر اسلام آباد شیخ انصر عزیز نے بنوایا تھا۔ ان کے ناموں کی تختی دیکھ کر میں اکثر سوچتا کہ ان حضرات نے کون سا جیب سے خرچ کیا ہے کہ اپنی سخاوت کے ثبوت کے طور پر یہاں تختی لگا رکھی ہے۔ سہولت قوم کو دی جا رہی ہے اور پیسہ بھی قومی خزانے سے لگا ہے تو ہر دو محترم شخصیات نے اپنی خود نمائی کی یہ حرکت کیوں کی ہے۔ خیر میں بورڈ اکھاڑ پھینکنے پر تو مقدور نہ تھا، دیکھتا تھا اور کڑھتا رہتا تھا کہ عوام کے پیسوں سے عوام کو آٹے کی دو بوریاں دے کر حاتم طائی بننے کی کوشش کرنا اب شہر میں دستور ہو چکا، یہ تو پھر فلٹریشن پلانٹ تھا۔
وہ زمانے چلے گئے جب گلاب دیوی اور سر گنگا رام اپنی دولت سے عوام کے لیے ادارے بنوایا کرتے تھے اب تو سرکاری پیسوں سے ادارے بنوا کر لوگ اپنے باپ اور بیوی تک سے یوں منسوب کرا لیتے ہیں جیسے دادا کی جاگیر بیچ کر یہ ادارے قائم کروائے گئے ہوں۔ آپ کا خیال ہے میں مبالغہ کر رہا ہوں تو آپ کو بہائولدین زکریا یونیورسٹی کے لیہ کیمپس کا دورہ کرنا چاہیے تا کہ آپ کی غلط فہمی دور ہو جائے اور آپ کو معلوم ہو جائے کہ ن لیگ کے اعجاز اچھلانہ صاحب نے قومی خزانے سے بننے والے ادارے کو کس بے رحمی سے " خاندانائز" کیا ہوا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیمپس کا نام والدکے نام پر اور گرلز ہاسٹل کا نام بیوی کے نام پر۔ خیر واپس اسلام آباد شہزاد ٹائون کے اس واٹر فلٹریشن پلانٹ کی طرف آتے ہیں۔ اگلے روز میں ادھر گیا تو ایک حیرت کدہ میرا منتظر تھا۔ وہی واٹر پلانٹ تھا، وہی عمارت تھی، وہی فرش تھا، سب کچھ وہی تھا لیکن کتبہ بدل چکا تھا۔ نئی تختی پر لکھا تھا کہ اس واٹر فلٹریشن پلانٹ کا افتتاح جناب امام شاہ فیصل مسجد اخلاق مدنی صاحب نے 13اپریل 2021 کوکیا۔ تختی کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا اس واردات میں سی ڈی اے بھی شامل تھی۔ وہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ واٹر فلٹریشن پلانٹ مرحوم قاضی سرفراز حسین اور محمدیہ بی بی کی طرف سے دیے گئے خطیر عطیے سے بنایا گیا۔ رقم یقینا خاصی زیادہ ہو گی کیونکہ وہاں Generous donation کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ ایک این جی کا نام بھی لکھا ہے اور سی ڈی اے کا بھی۔
عام لوگ سی ڈی اے کو تو عطیات نہیں دیتے، Generous donation اب یا تو فیصل مسجد کے امام اخلاق مدنی صاحب کو کسی نے عطیہ کیا کہ نیک آدمی ہیں اس کا درست استعمال کریں گے یا پھر کسی نے یہ رقم Children of Adam نامی اس این جی او یا ادارے کو دی جو اس طرح کے نیک کام پہلے بھی کرتا ہو گا۔ ہر صورت میں یہ معاملہ سنگین ہے اور بہت سے مالی، قانونی، انتظامی اور اخلاقی سوالات اٹھا رہا ہے۔
سی ڈی اے کو تو معلوم تھا یہ فلٹریشن پلانٹ سالوں سے کام کر رہا ہے۔ سی ڈی اے کو یہ بھی معلوم تھا یہ سرکاری پیسوں سے بنا ہوا فلٹریشن پلانٹ ہے۔ سی ڈی اے یہ بھی جانتا تھا کہ اس پلانٹ کا افتتاح میئر اور ایک وزیر نے کیا تھا۔ اس کے بعد سی ڈی اے اس دھوکہ دہی میں کیسے شامل ہو گیا کہ سات ٹونٹیاں اور بیس فٹ کی ٹائل بدل کر اسی پلانٹ کا نیا افتتاح کروا دیا، نئے بندے سے کروا دیا اور اسی کے نام پر پیسے بھی استعمال کروا دیے۔ پیسے بھی معمولی نہیں بلکہ Generous donation۔ اصل رقم لکھتے ہوئے شاید جملہ فریقین کو حیا آ گئی ہو تو واردات چھپانے کے لیے رقم نہ لکھی ہو کیونکہ بالعموم ایسے پراجیکٹس پر لکھا جاتا ہے کہ کتنی لاگت آئی۔
شاہ فیصل مسجد کے امام صاحب کس حیثیت میں استعمال ہوئے۔ شریک کار یا سہولت کار کے طور پر؟ یا وہ اپنی سادگی میں مارے گئے اور چار سال سے کام کرنے والے چالو پراجیکٹ کے پھر سے افتتاح کی واردات میں ان کا نام استعمال کیا گیا؟ ہر دو صورتوں میں یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
سی ڈی اے کی حد تک تو یہ سیدھا نیب کا کیس ہے کہ سرکاری ادارہ اپنے ہی بنائے ہوئے ایک پراجیکٹ کا دوبارہ افتتاح کروا کے اس کے نام پر Generous donation کیسے لے سکتا ہے۔ البتہ شاہ فیصل مسجد کے امام صاحب کے بارے میں بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک قابل احترام منصب پر فائز ہیں۔ مقامی آبادی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں اور سرگوشیوں میں اس سے زیادہ سنگین سوالات اٹھا رہی ہے جو میں نے کالم میں اٹھائے ہیں۔ ہزاروں کی آبادی میں ایسی واردات شعور اجتماعی کی توہین ہے۔ اور اس میں ایک اہم منصب کا نام آ رہا ہے تو یہ اس منصب کی بھی توہین ہے۔
اس انوکھی اور دکھی کر دینے والی واردات کا سی ڈی اے اور فیصل مسجد کے امام اخلاق مدنی صاحب کے پاس کیا کوئی جواب اور جوا ز موجود ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ معاشرہ اپنے سامنے ایسی واردات دیکھ کر خاموش اور لاتعلق کیوں ہو جاتا ہے؟