فیصل واڈا صاحب قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک، امکان ہے، وہ سینیٹرمنتخب ہو چکے ہوں گے۔ اس استعفے کے بعد ان کی خالی کردہ نشست پر قومی اسمبلی کے لیے ضمنی انتخاب ہو گا۔ بھینسیں بیچ کر کفایت شعاری کی اعلی مثالیں قائم کرنے والی حکومت سے سوال یہ ہے کہ اس ضمنی انتخاب کا خرچہ کون ادا کرے گا؟ تحریک انصاف، فیصل واڈا یا غریب عوام؟
ہم نے اگر جمہوری عمل کو آگے لے کر چلنا ہے تو ارتقاء کا یہ سفر انتخابی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں۔ بہت سارے امور توجہ طلب ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کر ان پر غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہیں۔ سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ انتخابی معاملات میں اصلاحات سے مزید گریز اہل سیاست کے اخلاقی وجود کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔
کسی جائز اور قابل فہم صورت حال میں ضمنی انتخاب ہو تو اس پر قومی خزانے سے خرچ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن فیصل واڈا صاحب قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوتے ہیں تو اس کی بظاہر دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول: انہیں خوف ہو کہ ان کے خلاف غیر ملکی شہریت کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں وہ نا اہل قرار دیے جا سکتے ہیں اس لیے قومی اسمبلی کی رکنیت کو چھوڑ دیا جائے اور از سر نو پارلیمان کی رکنیت لیتے ہوئے سینیٹر بن جایا جائے۔ دوم: ان کا جی مچل گیا ہو کہ ایوان زیریں میرے شایان شان نہیں ہے۔ مجھے تو ایوان بالا کا رکن ہونا چاہیے۔
ان دونوں صورتوں کا تعلق کسی اضطراری حالت یا مجبوری سے نہیں ہے۔ یہ ان کا اپنا انتخاب ہے۔ ان کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات کے اخراجات انہی سے کیوں وصول نہ کیے جائیں؟ یہ اخراجات عام آدمی کے حصے کی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر کیوں پورے کیے جائیں؟ یہاں حکومت کے پاس لوگوں کو صحت کی ڈھنگ کی سہولیات دینے کے پیسے نہیں اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے ضمنی انتخابات میں برباد کر دیے جائیں کہ ایک صاحب جو قومی اسمبلی کے رکن تھے اب سینیٹ کا رکن بننا چاہ رہے تھے؟
ایک آدمی ایم این اے ہے تو وہ سینیٹ کا الیکشن کیوں لڑ رہا ہے؟ یا ایک آدمی سینیٹر ہے تو وہ سینیٹ سے مستعفی ہو کر ضمنی انتخاب کے ذریعے ایم این اے بننا چاہتا ہے تو اس میں کیا حکمت ہے؟ کسی کو سینیٹ زیادہ پسند تھی تو اسے قومی اسمبلی میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا اور کسی کو قومی اسمبلی کا بہت شوق تھا تو اسے سینیٹر بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس شوقیہ مہم جوئی کی مگر کئی مثالیں ہیں۔ سراج الحق صاحب 2015 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کی مدت مارچ 2021 تک ہے۔ لیکن 2018 میں وہ دیر سے قومی الیکشن کے الیکشن میں امیدوار کے طور پر سامنے آگئے۔ انہیں شکست ہو گئی ورنہ اگر وہ جیت جاتے تو سینیٹ یا قومی اسمبلی میں سے ایک سیٹ چھوڑنا پڑتی۔ جو سیٹ بھی وہ چھوڑتے وہاں دوبارہ الیکشن ہوتا۔ تو کیا ایسا کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ایوان کا رکن اپنی مقررہ مدت کے دوران دوسرے ایوان کا الیکشن نہ لڑ سکے؟
مکمل پابندی پسند نہیں تو اتنا تو ہو سکتا ہے کہ ایک ایوان کا رکن دوسرے ایوان کا الیکشن لڑنا چاہے تو اس کے کاغذات نامزدگی اس وقت تک قبول نہ کیے جائیں جب تک وہ دوسرے ایوان سے استعفی نہ دے۔ فیصل واڈا سینیٹ میں امیدوار تھے اور اسی الیکشن میں رکن قومی اسمبلی کے طور پر ووٹ بھی ڈال رہے تھے۔ سراج الحق قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے تو بطور سینیٹر لڑ رہے تھے۔ کسی نے نہیں کہا کہ دوسرے ایوان کی رکنیت کا امیدوار بنتے وقت آپ کو پہلا ایوان چھوڑنا ہو گا۔ چنانچہ سراج الحق قومی اسمبلی کا الیکشن ہارے تو سینیٹ میں واپس آ گئے اور فیصل واڈا بھی سینیٹ کے امیدوار تھے اور رکن قومی اسمبلی کے طور پر ووٹ بھی ڈال رہے تھے۔ سراج الحق قومی اسمبلی کا الیکش ہار گئے تو ان پر واپس سینیٹ میں آنے کے دروازے بند ہونے چاہیں تھے اور فیصل واڈا سینیٹر کے امیدوار بن چکے تھے تو بطور رکن قومی اسمبلی انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔
کچھ لوگ عمران خان کی طرح پانچ پانچ حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں اور چار نشستوں پر پھر ضمنی انتخاب کرانا پڑتا ہے۔ تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ایوان کا رکن دوسرے ایوان کا الیکشن نہ لڑ سکے؟ کیا ایسی کوئی پابندی نہیں ہو سکتی کہ لڑنا ہی ہے تو الیکشن کے انعقاد سے پہلے دوسرے ایوان سے استعفی دے کر الیکشن میں اترے؟ کیا کسی کے خوف اور شوق کی وجہ سے بلاوجہ ضمنی انتخاب کی طرف جانا پڑے تو کچھ اخراجات اس امیدوار سے نہیں لینے چاہییں؟
برادر مکرم کنور دلشاد صاحب نے بتایا کہ انہوں نے تحریری طور پر یہ تجاویز انتخابی اصلاحات کمیٹی کو دی تھیں مگر رد کر دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ ایک امیدوار دو سے زیادہ حلقوں سے الیکشن نہ لڑ سکے لیکن یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔ تو کیا فیصلہ سازوں کا مفاد اسی میں ہے کہ انتخابی قوانین کمزور اور مبہم رہیں اور وہ مزے میں رہیں؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ فیصل واڈا صاحب کے خلاف جو الزامات تھے کیا قومی اسمبلی سے استعفے کے بعد وہ الزامات بے معنی ہو جائیں گے؟ اگر انہوں نے واقعتا کوئی غلط بیانی کی تھی اور انہیں ڈر تھا کہ قومی اسمبلی کی نشست سے وہ نااہل نہ ہو جائیں تو کیا قومی اسمبلی سے استعفی کے بعد وہ جرم ختم ہو گیا اور اب کوئی کارروائی نہیں ہو گی؟ یا ایک ایوان کی رکنیت کے حصول کے لیے کی گئی غلط بیانی کے نتیجے میں دوسرے ایوان سے بھی نا اہلی ہونی چاہیے؟ اگر قومی اسمبلی میں کاغذات نا مزدگی جمع کراتے وقت واقعی انہوں نے غلط بیانی کی اور اپنی امریکی شہریت چھپائی تو کیا وہ آرٹیکل 62 کے تحت ایوان بالا کی رکنیت کے اہل ہیں یا قومی اسمبلی سے استعفی کے بعد وہ کہانی وہیں ختم ہو گئی؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کا تعلق انتخابی جورسپروڈنس سے ہے۔
کیا ہم غور کرنے کو تیار ہیں؟ جمہوریت کی بالادستی مطلوب ہے تو سب کو معلوم ہونا چاہیے یہ منزل اخلاقی تقاضوں سے بے نیاز ہو کر محض قانونی موشگافیوں اور جمہوری اقوال زریں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس منزل تک پہنچنے کا ایک ہی زاد راہ ہے اور وہ ہے اخلاقی برتری۔ اہل سیاست کا معاملہ مگر یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو چکے۔ یہی بے نیازی ایک خوفناک خلاء پیدا کرتی ہے اور یہ خلاء جب کسی اور طریقے سے بھرتا ہے تو پھر کہرام مچ جاتا ہے۔ جمہوریت کو جمہور کے باب میں حساس رہنا چاہیے اور قدم قدم پر خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا اخلاقی وجود کہیں پامال یا نظر انداز تو نہیں ہو رہا۔ یہ صرف آپ کی اخلاقی برتری ہے جو آپ کو معتبر بھی بنا سکتی ہے اور امور ریاست میں بالادست بھی۔ یہ سوچنا اب اہل سیاست کا کام ہے کہ سینیٹ انتخابات نے ان کے اخلاقی وجود کو مستحکم کیا ہے یا گھائل کیا ہے۔