ایک ایسے وقت میں اسرائیل فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے اور اس کے حلیف اس کے لیے اسلحہ کے انبار بھیج رہے ہیں، اگر کوئی شخص او آئی سی سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بھی فلسطینیوں کو صرف خوراک اور کفن بھجوانے کی بجائے ساتھ اسلحہ بھی روانہ کرے تو کیا یہ ایک بچگانہ موقف ہوگا اور کیا ایسے آدمی کو یہ طعنہ دیا جا سکتا ہے کہ تمہارا مطالبہ تو بالکل جذباتی، سطحی اور غیر منطقی ہے اور تم تو بین الاقوامی تعلقات اور قانون کی نزاکتوں سے بے بہرہ اور لاعلم ہو؟
او آئی سی کا مینڈیٹ کیا ہے؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فلسطین کے لیے فوجی امداد دینا اور نجی اور ریاستی، ہر دو سطح پر فلسطین کے لیے عسکری اور فوجی مدد فراہم کرنا او آئی سی کے باقاعدہ مینڈیٹ میں شامل ہے۔ اسلامک آفس فار ملٹری کو آپریشن ود فلسطین ـ، کا ادارہ اسی لیے وضع کیا گیا تھا۔
اس لیے اگر کوئی شخص او آئی سی سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ صرف خوراک اور کفن نہ بھیجے بلکہ باقاعدہ فوجی مدد روانہ کرے تو یہ مطالبہ او آئی سی کے مینڈیٹ کے عین مطابق ایک منطقی ا ور جائز مطالبہ ہے۔
او آئی سی بنی کس لیے تھی؟ یہ ادارہ بنایا ہی القدس، مسجد اقصی اور فلسطین کے لیے گیا تھا۔ مسجد اقصی میں آگ لگائی گئی تو یہ ادارہ وجود میں آیاتھا۔ او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل 2 میں اس ادارے کے قیام کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ذیلی دفعہ پانچ میں بیان کیاگیا کہ مقامات مقدسہ کی حفاظت، فلسطینیوں کے جدوجہد میں معاونت اور ان کے حقوق کے حصول اور آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ چارٹر میں اس تناظر میں صرف ایک ریاست کا نام لے کر بات کی گئی ہے اور وہ فلسطین ہے۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ او آئی سی کے جنرل سیکرٹریٹ کا صدر مقام یروشلم ہے۔ او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل پانچ میں طے کیا گیاکہ چونکہ یروشلم اس وقت اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے تو ہم عارضی طور پر یہ سیکرٹریٹ جدہ میں قائم کر رہے ہیں اور جیسے ہی بیت المقدس آزاد کرا لیا جائے گا تو یہ سیکرٹریٹ یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔ یعنی بیت المقدس کی آزادی او آئی سی کے چارٹر کا حصہ ہے۔ یہ آزادی خوراک اور کفن بیج کر تو ملنے سے رہی۔ ایسے میں کوئی آدمی او آئی سی سے فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ جذباتی بات نہیں۔ یہ آرٹیکل دو کی طرح آرٹیکل پانچ کا تقاضا بھی ہے۔
او آئی سی کی شان نزول ہی فلسطین ہے۔ اس معاملے کی حساسیت کو یوں سمجھیے کہ او آئی سی کے چار اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان میں سے ایک اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا کام صرف اور صرف القدس کے معاملات کو دیکھنا ہے۔ او آئی سی نے ایک القدس کمیٹی بھی بنا رکھی ہے جس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ فلسطین اور القدس کے معاملات کو سٹڈی کرتی رہے اور انہیں دیکھتی رہے اور اقدامت تجویز کرے اور اس ضمن میں کوئی قرارداد آئے تو ا سپر عملدرآمد کے معاملات کو یقینی بنائے۔
او آئی سی کی اعلانیہ پالیسی میں لکھا ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد کیا جائے گا اور اس جہاد کے تین پہلو ہوں گے۔ معاشی، سفارتی اور عملی یعنی عسکری۔ عسکری جہاد کے باب میں لکھا ہے کہ یہ عام افراد کی سطح پر بھی ہوگا اور ریاستی سطح پر بھی ہوگا یہاں تک کہ القدس آزاد ہو جائے۔
فلسطین کی آزادی کی انہی کاوشوں کی عملی شکل کے طور پراسلامک آفس فار ملٹری کو آپریشن ود فلسطین، کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اس ادارے کی ذمے لگایا گیا کہ وہ فلسطین کی آزادی کے لیے فلسطین میں کوشاں گروہوں کی ہر طرح کی معانت کرے۔ او آئی سی نے اس کے لیے ایک متفقہ قرارداد پاس کی کہ ایک فوجی جرنیل اس ادارے کا سربراہ بنایا جائے۔ چنانچہ اس وقت ایک پاکستانی جرنیل کو اس ادارے کا سربراہ بنایا گیا۔
او آئی سی کا آفیشل موقف ہے کہ نہ صرف تمام مسلمان حکومتیں فلسطین کی آزادی کے لیے کام کریں ن، بلکہ عام لوگ بھی کام کریں اور عام لوگ بھلے اسلامی ممالک میں قیام پزیر ہوں یا غیر مسلم ممالک میں، وہ جہاں بھی ہوں، جس قدر ممکن ہو فلسطین کے کاز کی حمایت کریں۔ اب اگر او آئی سی براہ راست مسلم عوام کو مخاطب کرکے ان سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جہاں بھی ہیں فلسطینی کاز کے لیے کام کریں تو کوئی مسلمان آ گے سے یہ کیوں نہیں کہ سکتا کہ او آئی سی بھی اپنے چارٹر کے آرٹیکل دو اور پانچ پر عمل کرے؟
یہ ایک فیشن سا بنا لیا گیا کہ مروجہ ملامتی طرز فکر سے ہٹ کر اگر کوئی شخص سوچتا ہے یا بات کرتا ہے تو اسے جذباتی، غیر منطقی اور کم عقل ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ علم کی دنیا میں اجنبی ہے۔ یہ کوئی جذباتی مطالبہ نہیں کہ او آئی سی کفن اور خوراک نہیں بلکہ اپنے چارٹر کے مطابق فوجی مدد بھیجے۔ یہ ایک منطقی مطالبہ ہے اور او آئی سی کے مینڈیٹ کے عین مطابق ہے۔
یہ مطالبہ انٹر نیشنل لاء کے تحت بھی جائز مطالبہ ہے۔ انٹر نیشنل لاء نے صرف یہ قرار دے رکھا ہے کہ دوسروں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فلسطین کا معاملہ اسرائیل کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ یہ مقبوضہ سر زمین ہے جس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے اور اسرائیل وہاں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ نیز یہ کہ یہاں فلسطینیوں کو جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ انہیں باہر سے مدد حاصل کرنے کا حق بھی حاصل ہے اور او آئی سی کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ ان کی اسی طرح مدد کرے جیسے امریکہ اسرائیل کی یا یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔
اس میں کچھ عملی رکاوٹیں ہیں تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے، پالیسی کے تحت فی الوقت یہ آپشن اختیار نہیں کرنا تو یہ بھی ایک الگ معاملہ ہے، کسی متبادل آپشن کی طرف جانا ترجیح ہے تو یہ بھی ایک الگ معاملہ ہے لیکن اگر کوئی او آئی سی سے یہ کہتا ہے کہ اپنے چارٹر پر عمل کرو تو یہ منطقی اور جائز مطالبہ ہے۔ یہ کوئی جذباتی یا احمقانہ بات نہیں ہے۔
عوامی سطح پر ایسے مطالبات کی ایک الگ سے بھی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ مطالبات نہ بھی مانے جائیں تو ایک دبائو بڑھتا ہے۔ مسلم حکومتیں اس دبائو کو اپنے حق میں بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ زمینی حقائق کی پیچیدگیاں اگر اس کی راہ میں حائل ہیں تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ اس صورت میں بھی معقولیت کی کم از کم سطح یہ ہے کہ، مطالبہ کرنے والے کو جذباتی یا غیر منطقی یا نا معقولیت کا طعنہ نہ دیا جائے بلکہ او آئی سی کی کوتاہیوں کا اعتراف کیا جائے اور ان کے ازالے کا مطالبہ کیا جائے۔