افراط و تفریط کے اس ماحول میں آدمی کہاں جائے؟ لاء آفس سے نکلا تو اسی سوال کے ہمراہ میں مارگلہ کے ایک ہزار سال پرانے برگد سے ملنے چلا آیا۔ ساتھ ہی چشمہ بہہ رہ تھا۔ ہوا چل رہی تھی، میں بوڑھے برگد تلے میٹھے چھائوں میں بیٹھ گیا۔ دور دور تک کوئی ذی روح نہ تھا۔ بھری دوپہر میں وادی کو چپ سی لگی تھی۔ برگد کی کسی شاخ پر بیٹھی کوئی گیانی کوئل گیت سنا رہی تھی۔ کتنی ہی دیر اس بوڑھے درخت کی چھائوں تلے میں اپنے بچپن کی بچھڑی دوپہروں کو تلاش کرتا رہا۔ وادی کے اس پار پتھر کا شہر آباد ہے جس کی ہوائوں کی زردی نے وہاں کی دوپہر کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ دوپہر یا توگائوں میں اترتی تھی یا مارگلہ کی وادی میں۔
عام دنوں میں یہاں سیاح موجود ہوتے ہیں لیکن آج سناٹا تھا۔ اتنا سناٹا کہ پہلو میں موجود صدیوں پرانے غار سے گویا گوتم راج رشی نے آواز دی ہو: کتنی جان لیوا ہے دو پہر کی خاموشی۔ بدلتی رت کی اس گھنی اور میٹھی دوپہر میں بدھ مت کے غار کے سامنے دیا جل رہا تھا۔ شاید دور ملکوں سے کوئی سادھو یا زائر ابھی ادھر آیا تھا۔ پھر میں اٹھا اور اس وسیع و عریض غار میں گھس گیا۔ باہر اگر چہ تبدیلی، آ چکی تھی لیکن غار میں سکون تھا۔
میں کتنی ہی دیر غار میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ غار کے دہانے سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سامنے بوہڑ کے بوڑھے درختوں کی پھیلی جڑوں کے جھروکوں سے سامنے کی پہاڑی میں واقع قدیم غار نظر آ رہے تھے۔ وقت جیسے پر لگائے صدیوں پیچھے چلا گیا تھا اور میں بدھوں کی اس مقدس غار میں بیٹھا تاریخ کی گزرگاہ پر آتے جاتے قافلوں کو دیکھ رہا تھا۔
پہلو سے برساتی ندی بہہ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک راستہ اوپر پہاڑ کی طرف جا رہا تھا۔ یہ مارگلہ کا قدیم ترین راستہ تھا۔ افغانستان سے ہندوستان آنے والے قافلے اور لشکر سات صدیوں تک یہی راستہ استعمال کرتے رہے۔ سکندر اعظم کا لشکر بھی اسی راستے سے گزرا تھا اور ان غاروں سے تھوڑا اوپر جہاں وہ رکا تھا اس کا نشان آج بھی موجود ہے۔ میں اس کشادہ غار میں بیٹھا چشم تصور سے سکندر اعظم اور شیر شاہ سوری کے لشکروں کو گزرتا دیکھ رہا تھا۔ مارگلہ کے سنسان اس گوشے میں صدیوں کی تہذیب میرے سامنے کروٹ بدل رہی تھی۔
میں مارگلہ کے گائوں گڑیالہ کے تاریخی درے کے پہلو میں بد ھ مت کے غاروں میں بیٹھا تھا۔ ایک زمانے میں اس گائوں کا نام گڑیالہ تھا، پھر یہ مغلوں کے زمانے میں ایک بزرگ شاہ اللہ دتہ صاحب سے منسوب ہو ا اور اب اسے شاہ اللہ دتہ کہا جاتا ہے۔ صدیوں پہلے کا راستہ آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ کتنے ہی فاتحین اسے راستے سے گزر کر افغانستان سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور اس درے میں حملہ آوروں کے خلاف کم از کم تین خون ریز مزاحمتیں بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔
ان غاروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مغلوں سے پہلے یہ غار ہندو اور بدھ مت کے لوگوں کے استعمال میں تھے جو یہاں بیٹھ کر گیان دھیان میں مصروف رہا کرتے۔ ہزار سال پرانے برگد نے ان غاروں کو یوں چھپا رکھا ہے کہ پاس سے گزرتے ہوئے بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس تاریخی ورثے کے قریب کھڑے ہیں۔ بدھ مت کے لوگوں کے لیے یہ ایک مقدس جگہ ہے اور بدھ زائرین کا یہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ حکومت جاپان کی بھی ان گاروں میں کافی دلچسپی رہی ہے اور سی ڈی اے کے ساتھ مل کر ان کے تحفظ پر اس نے کام کیا ہے اور اس منصوبے پر جاپانی سفیر کے نام کی تختی بھی لگی ہے۔
اسی تختی پر لکھا ہے کہ یہ غار " پتھر کے زمانے " کے ہیں اور اڑھائی ہزار سال قدیم ہیں۔ روایت ہے کہ پہلی بار ان غاروں کو انسان نے ڈھائی ہزار سال پہلے استعمال کیا۔ غاروں کا پتھر عجیب سا ہے۔ ایسا پتھر مارگلہ کے مشرقی حصے میں گھومتے پھرتے کہیں نہیں دیکھا۔ یہ پتھر صرف ان غاروں میں نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ گڑیالہ گائوں میں بھی اوپر پہاڑوں کی چوٹی کی طرف نکل جائیں تو یہ پتھر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کی یہ شکل و صورت بتاتی ہے کہ کبھی پہاڑ کی یہ دہلیز سمندر کے پانی کے نیچے تھی کیونکہ ایسا پتھر وہیں ہوتا ہے جہاں طویل عرصہ سمندر کا پانی رہا ہو۔ تو کیا معلوم جس غار میں بیٹھا میں دوپہر گزار رہا تھا یہاں کبھی سمندر کی موجیں ہوتی ہوں۔
مارگلہ صدیوں پہلے کی تہذیب کا ورثہ ہے۔ ٹیکسلا کی تہذیب کا ایک اہم جزو مارگلہ ہے۔ اس کی غیر معمولی تاریخی اہمیت ہے۔ ہندو اور بدھ مت کی مذہبی سیاحت پر توجہ دی جائے تو مارگلہ میں غیر معمولی معاشی امکانات پوشیدہ ہیں۔ صرف یہ چند غار جو سکندر اعظم کے راستے پر واقع ہیں اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان پر توجہ دی جائے تو قیمتی زر مبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں بہت سے ہندو اور بدھ سیاح ان غاروں میں آتے دیکھے۔ ان میں سے بہت سارے سیاح سید پور گائوں اور ای سیون کے سامنے واقع برگد کے درخت تلے آتے تھے۔ ڈھوک جیون کا یہ درخت بدھ مت کے ماننے والوں کی عقیدت کا مرکز تھا۔ پھر یہ ہوا کہ درخت جلا دیا گیا اور خوف کی وجہ سے سیاح آنا کم ہوتے چلے گئے۔ اب تو عرصہ ہو گیا کوئی ہندو یا بدھ سیاح مارگلہ کے پہاڑوں میں مجھے نظر نہیں آیا۔ دنیا اپنے سیاحتی امکانات کو زندہ رکھتی ہے اور ان کی تشہیر کرتی ہے ہم اپنے امکانات کو تباہ کر کے مطمئن ہیں۔
غاروں کے اندر کئی تصاویر منقش تھی۔ اشوکا کی تصویر تو چند ماہ پہلے تک بھی واضح تھی۔ لیکن ان تصاویر کو محفوظ کرنے کی بجائے ان پر سفیدی پھیر دی گئی۔ اوپر پہاڑی پر جہاں سکندر اعظم رکا تھا اور کنواں موجود ہے اس جگہ کا نشان ہی ختم ہو چکا۔ اوپر ایک بائولی ہے وہ بھی بری حالت میں ہے۔
غار وں کے نیچے سادھو کا ایک باغ ہوتا تھا۔ معلوم نہیں یہ سادھو کون تھا اور یہ بھی پتا نہیں اس باغ کو سادھو کا باغ کیوں کہا جاتا تھا لیکن اتنا یاد ہے کہ سی ڈی اے نے بڑے طنطنے سے اسے اپنی تحویل میں لیا تھا کہ ہم اس کی دیکھ بھال کریں گے۔ اب وہاں کسی باغ کا نام و نشان نہیں ہے۔ ایک جگہ پر برگد کا ایک درخت ہے اور احاطہ کوڑے سے بھرا پڑا ہے۔
غار کی دہلیز تک ہوٹل کھل چکے ہیں۔ یہ تو رمضان کی دوپہر تھی، ہوٹل بند تھے اور برگد کی چھائوں میں سناٹے کا لطف موجود تھا ورنہ ہمارے بے ہنگم کمرشلزم نے ان تاریخی غاروں کو کاٹ کھایا ہے۔ یہی حالت رہی تو چند سالوں بعد یہ تاریخی ورثہ وقت کی دھول میں کہیں گم ہو چکا ہو گا۔ اور کسی کو معلوم ہی نہیں ہو گا گڑیالہ نام کے اس گائوں میں کتنی صدیاں دفن ہیں۔