ہم اس میدان کے سامنے کھڑے تھیِِ، جہاں سلطان جلال الدین اور چنگیز خان کے درمیان معرکہ ہوا تھا۔ روسی مورخ بن یادوف نے لکھا ہے کہ معرکہ کیا تھا، بس ایک حیرت کدہ تھا۔
شام کو سینیٹر جناب مشتاق احمد کا فون آیا کہ اگر وقت ہو تو کل اس مقام کو دیکھنے چلیں۔ عرض کی کہ جلال الدین کے نقوش کی تلاش میں، میں ہر وقت دستیاب ہوں۔ اب سینیٹر مشتاق صاحب، برادر مکرم مراد علی، جناب خالد شعیب، جناب اقبال ملک اور جناب اسلام شاہ صاحب پر مشتمل ہمارا قافلہ شیر خوارزم کی اس یاد گار پر کھڑا تھا۔ بہادری جب لوک داستان بن جاتی ہے تو آٹھ صدیاں بعد بھی اس کے نقوش سلامت رہتے ہیں۔
اس پہاڑی کو دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا۔ اکثر سوچتا تھا کہ ایک شکست خوردہ سلطان کے پہاڑ کی چوٹی سے دریا میں چھلانگ لگانے میں ایسا کیا تھا کہ چنگیز خان جیسا آدمی بھی یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ اس بہادر انسان کو دیکھو، اس کی ماں کو ناز کرنا چاہیے، جس نے اس جیسے جنگجو کو جنم دیا۔ یہ پہاڑی میرے سوال کا جواب تھی۔ یہ عقل و شعور کی حدوں سے آگے کا قدم تھا۔ یہ کسی انسان کا کام نہ تھا، یہ جلال الدین ہی کو زیبا تھا۔ ازبک قوم نے کیا حسب حال نام رکھا ہوا ہے: جلال الدین ہزار مرد۔
بزدل باپ کے شیر دل شہزادے نے جب تخت سنبھالا تو سلطنت بکھر چکی تھی۔ اس نے تنکا تنکا مزاحمت جوڑی اور ایک وقت وہ آیا جب اس کا قاصد خط لے کر چنگیز خان کے پاس پہنچا۔ لکھا تھا: تمہاری فوج میری تلاش میں عرصے سے ناکام بھٹک رہی ہے، اب میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں فلاں مقام پر ہوں۔ ایلچی صرف یہ پوچھنے کے لیے بھیج رہا ہوں کہ جنگ کے لیے تم آئو گے یا میں آ جائوں"۔
میر عطا نے لکھا ہے چنگیز خان اتنا پریشان ہواکہ ایلچی کو جواب بھی نہ دے سکا۔ اٹھا اور خیمے میں چلا گیا۔ میرعطا چنگیز کا درباری تھا۔ اس کی روایت ہے کہ چنگیز خان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے۔ سارا سارا دن لشکر کی تیاریوں کو دیکھتا مگر مطمئن نہ ہوتا کیونکہ اسے معلوم تھا جو سلطان در بدر پھرتے ہوئے بھی اس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے، وہ اگراب یوں للکار رہا ہے تو اس کامقابلہ آسان نہیں۔ یہ شیر کے منہ میں سر دینے و الی بات ہے۔ چنگیز کے لشکر کو پراوان میں شکست ہو چکی تھی۔ بازی الٹ چکی تھی۔ لیکن ایک گھوڑے پر سلطان کے لشکرکے دو امیر جھگڑ پڑے اور افغان سالار ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر الگ ہوگیا۔ چنگیز خان اسی موقع کی تلاش میں تھا۔ باقی تاریخ ہے۔
سلطان جلال الدین نے ہندوستان کی طرف نکلنے کا فیصلہ کیا۔ سطان کے لڑنے کا انداز تو جدا تھا ہی، اس کی پسپائی بھی انسانی تاریخ کا حیرت کدہ ہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ وہ اپنی بچی کھچی فوج لے کر بھاگ نکلا۔ تین ہزار سوار اور پانچ سو محافظین۔ یہ تھی اس کی کل فوج، مگر یہ سلطان مگر یہ تیس ہزار پناہ گزینوں کو ساتھ لے کر نکل رہا تھا۔ جس میں عورتیں تھیں، بچے تھے، بزرگ تھے، زخمی تھے۔ وہ چاہتا تو اپنے گھڑ سوار لے کر کب کا اس علاقے سے نکل گیا ہوتا لیکن وہ اپنے پناہ گزینوں کو ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا۔ یہیں اسے چنگیز خان کے لشکر نے آ لیا۔ ایک طرف سلطان جلال کے تیس ہزار پناہ گزین جن میں سپاہیوں کی تعداد صرف تین ہزار۔ دوسری جانب چنگیز کا ستر ہزار کا لشکر جسے پچاس ہزار کی مزید کمک مل گئی۔ تین ہزار بمقابلہ ایک لاکھ بیس ہزار۔ پھر بھی لڑنے والا اس انداز سے لڑا کہ ا س نے چنگیز کو جا لیا۔ چنگیز کے اپنے منشی عطا کی روایت ہے کہ قبل اس کے کہ جلال چنگیز تک پہنچتا جب چند قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا، بیچ میں منگول آ گئے اور چنگیز خان جلال الدین سے دو بدو لڑنے کی بجائے پیچھے ہٹ گیا۔
نیلاب کے مقام پر کشتیاں چلتی تھیں اور لوگ ان سے دریا عبور کرتے تھے۔ اب لوگ زیادہ تھے اور کشتیاں کم۔ عورتوں بچوں کو لے کر کشتیاں جاتیں اور واپس آتیں اور یہ طویل کام تھا۔ تیمور ملک نے سلطان سے درخواست کی: سب سے پہلے آپ دریا کے پار اتر جائیے۔ سلطان نے انکار کر دیا کہ وہ سب سے آخر میں جائے گا۔ سلطان ہی نے نہیں اس کے اہل خانہ نے بھی انکار کر دیا کہ پہلے پناہ گزین رعایا جائے گی پھر شاہی خاندان۔
تیمور ملک کا اصرار بڑھا تو سلطان نے غصے سے کہا: " میں جلال الدین ہوں"۔ یہ گویا تیمور ملک کو ایک تنبیہہ تھی کہ یہ مشورہ کسے دے رہے ہو۔ کیا تم بھول گئے تمہارے سامنے جو شخص کھڑا ہے اس کا نام جلال الدین ہے۔ اس فقرے میں جہاں معنی تھا۔ تیمور ملک پیچھے ہٹ گیا۔ یہ فقرہ ازبک ترک اور فارسی لوک داستانوں میں امر ہوگیا۔ آٹھ سو سال بعد اب جب سلطان پر ڈرامہ بنا ہے تو اس کا نام یہی فقرہ ہے: میں ہوں جلال الدین۔ حسن اتفاق دیکھیے شیر خوارزم نے جس دریا میں چھلانگ لگائی اسے بھی شیر دریا کہتے ہیں۔
کتنی ہی دیر میں حیرت زدہ اس پہاڑ کو دیکھتا رہا۔ سلطان تو پھر جلال الدین تھا، اس گھوڑے پر بھی آفرین ہے جو مالک کے اشارے پر اتنی بلندی سے دریا میں کود گیا اور دریا کے اس پار بھی لے گیا۔ روایت ہے کہ اس گھوڑے سے سلطان کو عشق تھا۔ یہ گھوڑا آخری معرکے تک سلطان کے ساتھ رہا لیکن اس چھلانگ کے بعد سلطان اسے کبھی میدان جنگ میں نہیں لے گیا کہ اسے کچھ ہو نہ جائے۔ اسے اس نے صرف محبت کی یاد گار کے طور پر اپنے ساتھ رکھا۔
دریا کے اس پار رات گزار کر صبح سلطان نے بچے کھچے ساتھیوں کے ساتھ واپس ایک بار پھر دریا عبور کیا۔ اب اسے اپنے شہیدوں کو دفن کرنا تھا۔ چنگیز کی فوج کے کچھ دستے اب بھی ادھر تھے۔ ان سے تصادم بھی ہوامگر وہ اپنے شہیدوں کو دفن کرکے ہی لوٹا۔ میں اس میدان جنگ کو دیکھ رہا تھا اور مجھے ازبک شاعر سیف الدین یاد آ رہا تھا، جس نے لکھا کہ: جب ہم اپنے بہادروں کے قصیدے لکھتے ہیں تو ہم جلال الدین کاذکر نہیں کرتے۔ کیوں کہ جہاں بہادری بھی ختم ہو جاتی ہے، جلال الدین کی عمل داری و ہاں سے شروع ہوتی ہے۔
ہندوستان داخل ہو کر سلطان نے التتمش سے پناہ مانگی۔ چنگیز کے ڈر سے دہلی کے سلطان نے بظاہر اچھے انداز سے معذرت کر لی۔ ساتھ لکھ بھیجا کہ اگر آپ ان علاقوں کو فتح کر لیں جو میری سلطنت میں نہیں تو ہم وہاں آ پ کی حکومت تسلیم کر لیں گے۔ چند سو سپاہیوں کے ہمراہ در بدر سلطان کو یہ پیغام دینا اس کا مذاق اڑانے کے برابر تھا مگر وہ جلال الدین تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے چھ ماہ میں وہ سندھ تک کا علاقہ فتح کرکے سلطنت قائم کر چکا تھا۔
جوزف کرومبل نے لکھا کہ جتنے غدار اکیلے جلال الدین نے قتل کیے اتنے شاید ہی کسی نے کیے ہوں۔ جلال الدین کے دل میں گرہ تھی کہ جب وہ اپنے لٹے پٹے لوگوں کے ساتھ آیا تھا تو دلی کے سلطان نے اسے پناہ نہیں دی تھی۔ چنانچہ ایک روز اس کا قاصد دلی کے بادشاہ کے پاس جا پہنچا کہ ایک علاقے میں سلطان ایک ہی رہ سکتا ہے آئو ذرا فیصلہ کر لیں کہ کس نے رہنا ہے۔ دلی کے سلطان کو معلوم تھا مقابلہ کس سے ہے۔ اس نے لکھ بھیجا کہ آپ سلطان ہو، سلطان زادے ہو، ہمارے بیچ لڑائی سیاسلام کا نقصان ہوگا۔ جلال الدین نے خط پڑھا اور حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔
مورخیں نے لکھا ہے کہ ایک روز نماز فجر کے بعد اس نے حکم دیا کہ ہم واپس جا رہے ہیں، ہم یہاں حکومت کرنے نہیں آئے، ہم یہاں طاقت بحال کرنے آئے تھے۔ ہمارا یہاں کوئی کام نہیں، ہم نے واپس جا کر منگولوں سے لڑنا ہے کیونکہ منگولوں کو روکا نہ گیا تو وہ مقامات مقدسہ تک جا پہنچیں گے۔ شام تک جلال الدین اپنی ہنستی بستی سلطنت چھوڑ کر چنگیز خان سے لڑنے واپس جا چکا تھا۔
دلی کے سلطان کو یہ خبر ملی کہ خوارزم کا سلطان سلطنت چھوڑ کر واپس چلا گیا ہے تو اسے یقین نہ آیا۔ کتنی ہی دیر وہ اپنے گورنر کا مکتوب ہاتھ میں تھامے سکتے کے عالم میں بیٹھا رہا اور پھرصرف اتنا کہہ سکا: السلطان الاعظم، سلطان جلال الدنیا والدین۔
بوزداغ نے آٹھ صدیاں بعد جلال الدین پر ڈرامہ بنایا ہے تو دلی کے سلطان کا یہ خراج عقیدت پرچم پر لکھ ڈالا ہے۔ السلطان الاعظم: سلطان جلال الدنیا والدین۔