سودا کے بارے میں روایت ہے کہ ہجو کے ماہر تھے۔ انہوں نے بھی دل ہی دل میں ٹھان رکھی تھی کہ چھوڑنا میں نے کسی کو نہیں۔ وہ کسی این آر او کے قائل نہیں تھے چنانچہ جب کسی سے خفا ہوتے تو وہیں حساب چکا دیتے۔ مزاج بگڑتا تو آواز لگاتے: غنچے میاں ذرا قلم دان لانا۔ غنچے میاں قلم دوات حاضر کر دیتے اور پھر مرزا سودا اپنے حریفوں کا حلیہ بگاڑ دیتے۔ سودا کا زمانہ اب ماضی ہو چکا اب نیا دور ہے جہاں مزاج یار کسی پر برہم ہو تو آواز لگائی جاتی ہے: غنچے میاں، ذرا آرٹیکل 6 لانا، یہ نا ہنجار بہت پھدک رہا ہے ذرا اسے سبق سکھلاویں۔ چنانچہ خواجہ آصف کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے روایت ہے کہ تحقیقات جاری ہیں، مولانا کے خلاف آرٹیکل 6 کے مقدمے کی خواہش بہار کے اولین شگوفوں کی مانند رگ و جاں سے پھوٹ رہی ہے اور وزیر دفاع دعوت مبارزت دے رہے ہیں کہ اپوزیشن اپنا قبلہ درست کر لے، ہر ملک مخالف کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ قائم ہو گا۔ سوال اقوال زر یں کے چشمہ فیض کا نہیں، سوال یہ ہے کیا مزاج یار کی برہمی کو کچھ خبر بھی ہے آرٹیکل 6 میں لکھا کیا ہے اور اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟
ہمارے ہاں غلط طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آرٹیکل چھ کا تعلق غداری سے ہے اور جو ملک سے غداری کرے گا اس پر آرٹیکل چھ لگا دیا جائے گا۔ چنانچہ ماضی قریب میں کہا گیا کہ جس نے ڈیم کی مخالفت کی اس پر آرٹیکل 6 لگا دیا جائے گا۔ حالانکہ آرٹیکل چھ کا ڈیم کی تعمیر یا اس کی مخالفت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے کہ کسی معاملے میں حکومت کی پالیسی سے مختلف کوئی موقف رکھنا کیا ریاست سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اس سے متصل بہت سارے دیگر سوالات میں بھی جہان معنی پوشیدہ پوشیدہ ہے لیکن فی الوقت سوال یہ نہیں کہ حکومت سے نقطہ نظر کا اختلاف غداری ہے یا نہیں، اس وقت سوال یہ ہے کہ آرٹیکل چھ کا تعلق غداری سے ہے یا یہ کسی اور معاملے سے متعلق ہے؟
آرٹیکل چھ کا تعلق غداری سے نہیں ہے۔ اس کے لیے قانون میں اور دفعات موجود ہیں۔ آرٹیکل چھ کا تعلق آئین شکنی سے ہے اور اسے ہائی ٹریزن قرار دیا گیا ہے۔ آرٹیکل چھ صرف اس صورت میں لگے گا جب کوئی آئین شکنی کا ارتکاب کرے گا یا آئین شکنی کی کوشش کرے گا یاکسی کو آئین شکنی کی ترغیب دلائے گا اوراس کی معاونت کرے گا۔ ڈیم کی مخالفت یا ڈیم فنڈ میں چندہ دینے یا نہ دینے پر آرٹیکل چھ نہیں لگ سکتا۔ اسی طرح حکومت کے خلاف اگر کوئی تحریک چلاتا ہے تو اس پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ الا یہ کہ واضح طور پر ثابت کیا جائے کہ اس تحریک میں کوئی آئین شکنی ہوئی ہے یا کسی کو آئین شکنی کی ترغیب دی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن حکومت سے مزاکرات کے بعد حکومت کے مقرر کردہ پنڈال میں بیٹھ کر واپس آ گئے، ان پر آرٹیکل چھ کیسے لگے گا؟
تاہم اگر مولانا کی ذو معنی گفتگو پر آرٹیکل چھ لگانے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر ایک اور سوال اٹھے گا جو انتہائی اہم سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل سیاست کے بیانات اور تحریکوں کو اگر آرٹیکل چھ کے دائرے میں لانا ہے تو اس نیک کام کا آغاز مولانا فضل الرحمن سے کیوں؟ آئین پاکستان نے تو خود طے کر دیاہے کہ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی شروعات 23مارچ 1956 سے ہوں گی۔ یہ واحد قانون ہے جس کا Retrospective اطلاق ہوتا ہے۔ اس صورت میں ڈی چوک کا دھرنا، وہاں کھدی قبریں اور پہنے گئے کفن، وہاں کیے گئے خطابات اور ایمپائر کی انگلی کے ذو معنی بیانات، یہ سب زیر بحث آئیں گے اور سوال اٹھے گا کہ مخدوم جاوید ہاشمی جو الزامات عائد کر کے دھرنے سے الگ ہو ئے تھے ان میں کتنی صداقت تھی۔ اہل سیاست کی سیاسی سرگرمیوں میں جتنی تندی بھی آ جائے ان پر آرٹیکل چھ لگانے کی بات موزوں نہیں۔ آرٹیکل چھ کا تناظر بالکل مختلف ہے۔ اور کسی سیاست دان پر اس لیے آرٹیکل چھ لگایا جائے کہ اس نے حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کی ہے تو پھر غور فرما لیا جائے کہ یہ سلسلہ کہاں رکے گا۔ کیونکہ جس طرح یہ حکومت پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے اسی طرح نواز شریف کی حکومت کے پاس بھی پانچ سال کا آئینی مینڈیٹ موجود تھا۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پرویز الہی صاحب کے ساتھ فضل الرحمان صاحب نے کوئی معاملہ کیا تو اگر اس پرآرٹیکل چھ لگ سکتا ہے تو نواز شریف دور میں امپائر کی انگلی کے منتظر اہل سیاست آرٹیکل چھ کے اطلاق سے کیسے بچ پائیں گے؟
تاہم اگر عمران خان واقعی آرٹیکل چھ لگانا چاہتے ہیں تو پھر صرف مولانا پر کیوں؟ اگر کوئی ایسا کام ہوا تھا جس پر آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے تو اس کام میں مولانا اکیلے تو نہ تھے۔ عمران خان بے شک آرٹیکل چھ لاگو کردیں لیکن اس سے پہلے پرویز الہی کو طلب کر کے ان سے تھوڑی سی باز پرس کرنے کی ہمت تو کر لیں۔ وہ عمران خان کو قائل کر لیں تو ٹھیک ورنہ انہیں پنجاب میں اتنے اہم عہدے پر بٹھائے رکھنے کا تحریک انصاف کے پاس کیا کوئی جواز ہے؟
معلوم یہ ہوتا ہے آرٹیکل چھ تو یہاں زیب داستان ہے، فسانہ کچھ اور ہے۔ فسانہ وہ سوچ ہے جو سیاسی حریفوں کو برداشت نہیں کر پا رہی۔ یہ سوچ اگر برقرار رہی تو آرٹیکل چھ کی شکل میں ظہور نہ کر سکی تو کسی اور قانونی دفعہ میں بروئے کار آ جائے گی۔ آخر Sedition کا قانون بھی تو موجود ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت حکومت کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات کو فروغ دینے یا لوگوں میں حکومت سے محبت کو کم کرنے کی کوشش کی سزا عمر قید تک ہے۔ اگر یہ سوچ موجود رہی تو دفعہ 124 اے کے شکنجے میں تو کسی تو بھی کسا جا سکتا ہے۔ بس غنچے کے قلم دوات لانے کی دیر ہے، ہر ایک کی پشت لال اور ہری ہو جائے۔