ہمارے معاشی ماہرین طالبان حکومت کی مدد کریں گے،۔۔۔۔ جناب شاہ محمود قریشی کا بیان پڑھا تو تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما کو واٹس ایپ کیا اور پوچھا عالی جاہ، آپ کے معاشی ماہرین نے اپنے ملک کے ساتھ جو کر دیا ہے وہ کیا کم ہے کہ اب معاشی ماہرین، کی خدمات کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں؟ تھوڑی دیر بعد جواب آیا، آصف بھائی آپ معاشی اعدادو شمار میں نہ الجھیں، آپ اس وقت صرف ہمارا اعتماد چیک کریں۔ آپ یہ بتائیں کیا کسی بھی اور ملک کے معاشی حالات ہمارے جیسے ہوتے تواس کا وزیر خار جہ ایسی پیش کش کرنے کی ہمت کر پاتا؟
معرفت کی یہ بات سنی تو وجود پر آگہی کے ایسے موسم اترے جیسے برسات میں کسی آئینے پرسبزہ آ جائے۔ معلوم ہوا کہ وہ سارے معاملات جن پر ہم جیسے تنقید کرتے رہے اصل میں فقط اس بات کا اعلان تھا کہ ہمارا اعتماد چیک کریں،۔ یہ گویا پہلے مرحلے میں قوم کو فکری یکسوئی دی جا رہی ہے تا کہ کراچی سے خیبر تک پورا پاکستان ان کا اعتماد چیک کر لے ا ور جب اس کی تسلی ہو جائے اور ایک ایک قریہ اور ایک ایک کوچہ پکار اٹھے کہ واہ بھئی واہ ایسا اعتماد تو دیکھا نہ سنا، پھر دوسرامرحلہ شروع ہو گا۔
دوسرے مرحلے میں صرف 90 دنوں میں قوم کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ 88دن ابھی باقی ہوں گے جب اربوں ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مار دیے جائیں گے اور باقی کے اربوں ڈالر ڈی چوک پر غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ باقی کے 80 دن سکولوں میں لب پہ آتی ہے دعا، کی بجائے یہ نظم گنگنا ئی جائے گی کہ اچھے دن آئے ہیں،۔
آگہی نے شعور کو بال و پر بخشے تو یادوں نے ہجوم کیا اور اپنی کم عقلی پر افسوس ہوا۔ ابھی چند دن پہلے جب گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل نے ارشاد فرمایا کہ راشد منہاس شہید کی بیوہ نے عمر بھر شادی نہیں کی توکم فہم لوگ اس بحث میں الجھ گئے کہ راشد منہاس شہید کی شادی ہی نہیں ہوئی تھی تو بیوہ کہاں سے آگئی۔ یہ بحث ابھی جاری تھی کہ موصوف نے نیا ارشاد فرما دیا کہ لیاقت علی خان فرزند کراچی تھے اور کراچی میں ہی شہید ہوئے۔ لوگوں نے پھر شور مچا دیا کہ لیاقت علی خان تو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید ہوئے تھے۔ حقیقت مگر اتنی سی تھی کہ لوگ فضول بحث میں الجھے تھے اور وہ یہ نہ جان پائے کہ جناب عمران اسماعیل انہیں تاریخ نہیں پڑھا رہے تھے وہ تو صرف اس بات کا اعلان فرما رہے تھے کہ اے اہل وطن:ذ را ہمارا اعتماد تو چیک کرو۔
گورنر سٹیٹ بنک باقر رضا صاحب کی ایک ویڈیو وائرل ہو چکی ہے اس میں وہ نیم خواندہ قوم کو معاشی اصول سمجھا رہے ہیں کہ روپے کی قدر کم ہونے سے اوورسیز پاکستانیوں کے خاندان مزے کر رہے ہیں۔ ڈالر وہ اب بھی اتنے ہی بھیج رہے ہیں لیکن پاکستان میں ان کے اہل خانہ کو اب روپے زیادہ مل رہے ہیں اور یہ اس دور کی برکت ہے جو لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ بعض دل جلوں نے اس بیان پر بھی شور مچا دیا۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ اگر حکومت نے روپے کی قدر کم نہ کی ہوتی تو سارے ٹیکس اور مہنگائی ملا کر بھی پٹرول 68 روپے فی لٹر مل رہا ہوتا۔ سپریم کورٹ کی فاضل وکیل محترمہ نرگس چوہان نے جمع تفریق کر کے اعلان کیا کہ روپیہ گرنے سے پورے نوے لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوا جبکہ نقصان صرف بائیس کروڑ لوگوں کا ہوا۔
جن ناقدین کے خیال میں گورنر سٹیٹ بنک نے احمقانہ یا کم ازکم بچگانہ بات کی ہے، وہ اصل میں خود غلطی پر ہیں۔ جناب باقر رضا ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ پی ایچ ڈی انہوں نے معیشت میں کر رکھی ہے اور وہ بھی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بقائم ہوش و حواس اتنا فاضل آدمی اپنے ہی شعبے میں ایسی لایعنی گفتگو کرے۔ امکان غالب ہے کہ وہ بھی اصل میں اپنی قوم کو دعوت فکر دے رہے تھے کہ موتیاں والیو، ذرا ہمارا اعتماد تو چیک کرو،۔
علی محمد خان صاحب ایک سنجیدہ اور بھلے آدمی ہیں۔ وہ اگر سعودی سفیر محترم کو خط لکھ مارتے ہیں کہ عالی جاہ میرے حلقے میں یہ یہ کام رکے پڑے ہیں ازرہ کرم تھوڑی سی امداد، دے دیجیے تو اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ سفارتی آداب سے لاعلم ہیں اور انہیں کشکول درازی کے بنیادی آداب کا ہی نہیں پتا۔ وہ تو اصل میں منادی فرما رہے ہوتے ہیں کہ مردان والو، ذرا نزدیک ہو جائو اور اپنے منتخب نمائندے کا اعتماد تو چیک کرو۔
اگلے روز جناب وزیر اعظم نے فرمایا قانون کی حکمرانی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔ لوگ سوال پوچھنے بیٹھ گئے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن سے 15 اکائونٹ کیوں چھپائے، کارروائی خفیہ رکھنے کی درخواستیں کیوں دیں، تحقیقات سے بچنے کے لیے ہائی کورٹ میں 11 پٹیشن کیوں فائل کیں، حکم امتناعی کیوں لیے، بی آر ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کیوں چھپا لی وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ لیکن لوگ یہ نکتہ بھول جاتے ہیں کہ صاحب صرف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ذرا ہمارا اعتماد تو چیک کیجیے،۔
28 میں سے 21 وزراء دوسری جماعتوں سے لیے گئے ہیں۔ یہ اس سے پہلے بھی وزیر اور مشیر تھے۔ کوئی گورنر رہا کوئی چیئر مین سینیٹ رہا کوئی سپیکر رہا۔ پھر بھی وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ہم تھوڑے ناتجربہ کار ہیں اور نئے نئے ہیں۔ یہ عذر اصل میں سندیسہ تجاہل ہے کہ باقی باتیں چھوڑو اور صرف ہمارا اعتماد چیک کرو۔ کابینہ میں کئی رجال کار ایسے ہیں جن کے والدین دوسری جماعتوں کی بنائی حکومتوں کا حصہ تھے۔ اب یہ نونہال جب مسکرا کر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں کہ پہلے والے بڑے کرپٹ تھے تو یہ اصل میں چیلنج دے رہے ہوتے ہیں کہ اے افتادگان خاک، صرف ہمارا اعتماد چیک کرو۔
اگر جرمنی اور جاپان کی سرحد ملا دی جاتی ہے، اگر ایک ملین ڈالر کا جعلی نوٹ عطیہ کر دیا جاتا ہے، ، اگر سالوں 35 پنکچرز کا دیوان پڑھنے کے بعد آخر میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو درست بات نہیں تھی، اگر غیر ملکی بنکوں میں پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر کا سالوں مشاعرہ پڑھنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا، اگر مہنگائی کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے فورا بعد مہنگائی کے خلاف اجلاس بلا لیا جاتا ہے، اگر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے دس لقمے کم کھانے اور نو دانے چینی کے کم استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اگروزیر اعظم خود ہی پٹرول مہنگا کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر کے خود ہی مہنگائی کے خلاف اجلاس طلب فرما لیں، تو یہ تضادات یا نااہلی نہیں ہے۔ یہ صرف اس بات کا اعلان ہے کہ عزیز ہم وطنو ذرا ہماراا عتماد تو چیک کرو۔